پاکستان میں گندم کی قلت اور مہنگائی کی وجہ سے دو موضوعات زیربحث ہیں۔ پاکستان کے لئے گندم کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہماری معیشت کا ستون اور بنیادی خوراک کے طور پر استعمال ہونے والی اہم جنس ہے۔ بائیس کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں کے لئے اِسی کی فراہمی سے جڑا پہلو ’غذائی تحفظ‘ کہلاتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان کے چوالیس فیصد کاشتکار گندم کی فصل اُگاتے ہیں۔ یہ کل زیر کاشت رقبے کے 44 فیصد حصے پر بوئی جاتی ہے اور قومی غذائی ضروریات میں 72 فیصد گندم پر انحصار کیا جاتا ہے۔ اِس خصوصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے گندم پالیسی میں کسی بھی قسم کی غلطی کے متحمل نہیں ہوسکتے حالانکہ ہم نے گزشتہ سات دہائیوں میں یہی عمل کیا ہے کہ گندم کی پیداوار کے حوالے سے کی جانے والی غلطیوں کو بار بار دُہرایا ہے۔ پاکستان جو کبھی گندم کا برآمد کنندہ ملک ہوا کرتا تھا اب گندم کی درآمدات سالانہ تقریبا ً72 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے اور اِس قدر خرچ کے باوجود بھی گندم کی رسد اور طلب کے درمیان فرق کم نہیں ہو رہا بلکہ اِس میں دن بدن
اضافہ ہو رہا ہے۔گندم کی ’ویلیو چین‘ میں خرابیاں ہیں‘ جن کا اجمالی خاکہ پیش کیا جا رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ماضی میں کسانوں کی خاطرخواہ اہمیت و حمایت نہیں دی گئی۔ زرعی پیداواری ضروریات (اہم زرعی ان پٹس) پر بھاری ٹیکس عائد ہے‘ جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پانی اور زرعی قرضوں تک رسائی (دو اہم اِن پٹ ہیں) کی دستیابی محدود ہے۔ تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) میں محدود سرمایہ کاری جدت طرازی اور پیداواری صلاحیت میں اضافے کو روکے ہوئے ہے۔حکومت کی جانب سے گندم کی کم سے کم ’سپورٹ پرائس‘ مقرر کرنے کا عمل موثرہونا چاہئے۔ دیہی فیصلہ ساز زیادہ قیمت کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے برعکس شہری فیصلہ سازوں کی کوشش ہوتی ہے کہ گندم کی قیمت کو کم سے کم رکھا جائے کیونکہ آٹے کی قیمتوں کی وجہ سے بھی مہنگائی (افراط زر) میں اضافہ ہوتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بالترتیب پاسکو اور صوبائی محکمہ خوراک کے ذریعے کاشتکاروں سے ذخائر خریدتی ہیں جبکہ پاسکو کمرشل ٹرانزیکشن کرتا ہے کیونکہ اسے سٹیٹ بینک اور ایف ڈی گارنٹیز سے نمٹنا ہوتا ہے۔ صوبائی حکومتیں تجارتی قرضے لیتی ہیں چونکہ انہیں فلور ملز کو سبسڈی بھی دینا ہوتی ہے اس لئے وہ گردشی قرضہ جمع کرتے ہیں جس کی مالی اعانت بجٹ کے ذریعے ہونی چاہئے۔ سال میں صرف پنجاب پر گندم کا گردشی قرضہ چھ سو چالیس ارب روپے تھا۔ اِس طرح گندم سے متعلق غلط فیصلوں کی بھاری قیمت‘ چکانا پڑتی ہے۔علاوہ ازیں حکومتی گوداموں سے ٹریکیبلٹی اور ڈیجیٹلائزیشن کی عدم موجودگی کے باعث گندم چوری ہوتی ہے چونکہ گندم پڑے رہنے سے ہلکی یا بھاری ہو سکتی ہے کیونکہ اِس میں موجود نمی گھٹتی بھرتی ہے۔ا س کے ساتھ ساتھ ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے کے رجحان
کی وجہ سے گندم کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ رواں برس گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے جسے دیکھتے ہوئے اندیشہ و امکان ہے کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی کی جائے گی۔ اگر پاکستان میں پیدا ہونے والی تمام گندم مارکیٹ میں آ جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ گندم کی قیمتوں اور معیار پر سمجھوتے سے ہر کوئی متاثر ہوتا ہے جس میں سب سے زیادہ متاثر غریب گھرانہ ہوتا ہے جو اپنی ماہانہ آمدنی کا پچاس فیصد سے زیادہ کھانے پینے کی ضروریات پر خرچ کرتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ گندم کے نرخ کا تعین کرنے کی بجائے اِسے مارکیٹ پر چھوڑ دے (اس میں آزادانہ بین الصوبائی نقل و حرکت بھی شامل ہے) اور اسے صرف بیج ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سٹریٹجک ذخائر اور عوامی پالیسی کی مداخلت یا آر اینڈ ڈی کی حد تک مداخلت کرنی چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آٹے پر غیر ہدف شدہ اور غیر پائیدار سبسڈی دینے کے بجائے گندم کی سبسڈی کو ڈیجیٹل نظام کے ذریعے تقسیم کیا جائے تاکہ صرف مستحق افراد ہی کو زیادہ اور مؤثر طریقے سے فائدہ پہنچے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ثانیہ نشتر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)