سال 1985-86ء سے آج تک پاکستان نے مجموعی طورپر 5 ارب ڈالر قرض لیا ہے جبکہ اندازاً 16 ارب ڈالر واپس کئے ہیں اور مزید 28 ارب ڈالر واپس کرنا ہیں! پاکستان جن غیرملکی ذرائع سے قرض لیتا ہے اُن کی غیرمنصفانہ بلندانٹرسٹ ریٹ کی وجہ سے قرض کی رقم بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ نائیجریا کے سابق صدر اولوسگن اوباسنجو (Olusegun Obasanjo) نے کہا تھا کہ ”اگر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ دنیا کی سب سے بدترین شے کیا ہے تو وہ ’کمپاؤنڈیڈ انٹرسٹ ریٹ (compounded interest)‘ ہے۔ نائجیریا نے 5 ارب ڈالر قرض لیا اور پھر 44 ارب ڈالر ادا کئے۔ جنوری 2023ء تک پاکستان کا سرکاری قرضہ تقریباً 54.94 کھرب روپے (267 ارب ڈالر) تھا جو پاکستان کی کل خام پیداوار (جی ڈی پی) کا 70فیصد سے زیادہ ہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو قومی وسائل کو ترقی دینے اور قومی معیشت میں سرمایہ کاری کو راغب کرنے جیسے پائیدار طریقوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ قرضوں سے جان چھڑا کر ہی پائیدار معاشی ترقی ممکن ہے۔ بنیادی ضرورت یہ ہے کہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر پاکستان کی معاشی بحالی کے بارے میں سوچا جائے اور اِس ہدف و مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔قرض سے نجات کے لئے ایک اچھا قدم یہ ہوگا کہ اسلامی بینکاری کا نظام اختیار کیا جائے۔ اسلامی بینکاری کا نظام کیوں اور کیسے مدد کرے گا؟ اِس سلسلے میں صرف تین اقدامات مددگار ثابت ہو سکتے ہیں‘ اسلامی بینکاری میں سود نہیں ہوگا۔ اسلامی بینکاری میں معاشی قیاس آرائی نہیں ہوتی اور اسلامی بینکاری میں اثاثے اور اُن پر منافع محفوظ (یقینی) ہوتا ہے جبکہ نقصان میں شراکت ہوتی ہے‘ یہ تینوں نظام معاشی مستقبل کو یقینی و محفوظ بناتے ہیں اور اِن سے معاشی نقصان کا خطرہ کم سے کم ہوجاتا ہے۔ اسلامی معاشیات کا بنیادی جوہر ’مصر‘ میں اُس وقت سامنے آیا جب شمالی مصر میں کام کرنے والے ایک شخص نے اپنی بچت اور سرمایہ کاری سے غریب کسانوں کو نفع و نقصان کی بنیاد پر مالی اعانت (قرض) فراہم کرنا شروع کیا اور یوں ایک اسلامی بینکاری کا نظام وجود میں آیا۔ ملائیشیا میں بھی اِسی قسم کا تجربہ کیا گیا اور وہاں بھی صنعتی اور زرعی منصوبوں میں اسلامی اصولوں کے مطابق سرمایہ کاری کی گئی۔ اسلامی بینکاری کی معراج یہ ہے کہ اِس کا مقصد فلاح و بہبود کا آغاز زمین سے کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں صدقات و خیرات اور ’زکوٰۃ‘ کا نظام اِسی لئے حکم ہوا تاکہ سرمائے کی گردش جاری رہے تاہم اِس معاشی نظام میں ریاست کا کلیدی کردار ہے جو عوام کے لئے معاشی ترقی کے مساوی و منصفانہ مواقع فراہم کرے۔ مساوات اسلامی معاشیات کی پہچان ہے۔ نچلی سطح سے شروع ہونے والی فلاح و بہبود کی بات کرتے ہوئے‘ میں یہاں ’آئی ایف آئی‘ کے اثرات اور ان کے ممکنہ اور فوری فوائد کا بھی جائزہ لینا چاہوں گا۔ مثال کے طور پر پاکستان میں زکوٰۃ کی وصولی جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ چھ فیصد سے چار اعشاریہ چار فیصد کے درمیان ہے‘ مخصوص منصوبوں کو ہدف بناتے ہوئے اگر یہ رقم بنیادی ڈھانچے کی ضروریات سے محروم برادریوں میں تقسیم کی جائے تو خاطر خواہ ترقی کا باعث بن سکتی ہے۔ قومی ترقی میں یہ ایک اچھی سرمایہ کاری ہے جو وصول کنندہ پر کسی بھی منافع کا بوجھ نہیں ڈالتی اگرچہ فنانس کی دنیا میں متبادل مالیاتی سکیمیں کبھی بھی نئی چیز نہیں رہی لیکن اسلامی ماڈل کی طرف بڑھنا ایک ایسے نظام کی طرف تبدیلی کا باعث ہو سکتا ہے جو قرض کی توسیع اور ترقیاتی فنانسنگ کے لئے ضمانت اور اثاثوں کو بنیاد کے طور پر اہمیت دیتا ہو۔ یہ تبدیلی جدید ہو جاتی ہے کیونکہ یہ نظام کو شروع سے آخر تک تبدیل کرنے کی ضمانت دیتا ہے‘اسلامی مالیاتی نظام اور بینکاری ڈھانچے انسانی اخلاقی ضابطوں اور مارکیٹوں یا اداروں کے مابین تعلق کا احاطہ کرتے ہیں جو قرض لینے والوں کیساتھ غیر استحصالی رویئے اور لین دین کو بہتر بناتے ہیں‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی اپریل 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق مالی سال دوہزار اکیس میں اسلامی بینکاری میں اب تک کا سب سے بڑا اضافہ دیکھا گیا جو پانچ کھرب روپے کے ہدف سے تجاوز کر کے ساڑھے پانچ کھرب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ جن شعبوں میں اسلامک فنانس ہوئی اُن سستی رہائش‘ ایس ایم ای سیٹ اپ اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے شعبے شامل ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اسلامی معاشیات معاشرے کے اندر پیداوار کے تمام عوامل پر اثرانداز ہوتی ہے اور یہ دولت کے اشتراک اور باہمی طور پر خصوصی لین دین کے طرز عمل کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے جو ہر ایک کیلئے معاشی پیداوار میں اضافے کا باعث ہے۔ صارفین کی معقولیت کے لحاظ سے اسلامی اقتصادی میکانزم کا انحصار انفرادی مفروضوں پر نہیں بلکہ معاشرے کے اجتماعی اقدامات پر ہوتا ہے جس میں ریاست اور شہریوں کے درمیان شفافیت کسی بھی لین دین کی بنیادی شرط ہوتی ہے۔ مغربی مالیاتی نظام کے برعکس‘ اسلامی مالیاتی نظام معاشرے کو اپنے مفادات کیلئے قبضہ کرنے نہیں دیتا بلکہ فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے کمیونٹی کی حمایت اور اضافے پر توجہ مرکوز رکھتا ہے‘ مزید برآں‘ اسلامی معاشیات‘ مجموعی فلاحی تصور کے ذریعے‘ سہولت اور شمولیت جیسی خوبیوں کیساتھ جڑی ہوئی ہے لہٰذا مالی شمولیت بڑھانے اور مالی خدمات کو معاشرے کے تمام طبقات کیلئے زیادہ قابل رسائی بنانے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہئے اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ یہی نظام ماحولیاتی استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے اور اِس سے قدرتی وسائل کے تحفظ کو بھی فروغ ملتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ایم اظفر احسن۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام