خارجہ پالیسی کے عمل میں سافٹ پاور کی اہمیت اور کردار پر بحث جاری ہے۔ یہ بحث ایک عرصے سے تسلیم کی جاتی رہی ہے کہ بین الاقوامی تصورات کسی ملک کی حیثیت اور یہاں تک کہ اُس کے عالمی معاملات میں جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ کا نتیجہ (عکس) ہوتے ہیں۔ حقائق اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب ’سافٹ پاور‘ کو کسی ملک کی سفارتی حکمت عملی کے لازمی جزو کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو یہ اعتماد اور اثر و رسوخ پیدا کرکے خاطرخواہ فائدہ دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں‘ اُس ملک کو اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف کو زیادہ مؤثر طریقے سے فروغ دینے میں بھی مدد ملتی ہے۔ وہ ریاستیں جو اپنے طرز عمل سے عزت حاصل کرتی ہیں وہ ’سافٹ پاور‘ سے فائدہ اٹھاتی ہیں جو ان کی عالمی ساکھ میں اضافہ کرتی ہے۔
فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھاری نے اس پر اختلاف کیا اور دعویٰ کیا کہ ’سافٹ پاور تصور ایک ایسی دنیا میں پرانا نظر آتا ہے جہاں ’ہارڈ پاور‘ کو زیادہ اہمیت حاصل ہو۔‘ انہوں نے آسٹریلیا اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کی مثال دی ہے جو طویل عرصے سے اپنی ساکھ بنانے کے لئے کوشش کر رہے ہیں لیکن اب ”چین کے ساتھ ایک خطے کے اشتراک جیسی مجبوریوں“ کے نتیجے میں ’ہارڈ پاور‘ کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہارڈ پاور کا مطلب یہ ہے کہ دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس سے انہوں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ آج کی دنیا میں ”سافٹ پاور کا خاتمہ مفید تصور کے طور پر نہیں بلکہ اِس کا وحشیانہ اظہار“ ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ’سافٹ ایسیٹس‘ نہ تو غیرلچکدار مؤقف کی جگہ لے سکتی ہیں اور نہ ہی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن ’ہارڈ پاور‘ کے مقابلے ’سافٹ پاور‘ کو خاطرخواہ موقع نہیں دیا جاتا اور اسے ہمیشہ کسی ملک کی حکمت عملی میں سخت طاقت کی تکمیل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بہرحال‘ یہ کسی بھی ملک کے اپنے اہداف و مقاصد کا تعاقب ہوتا ہے۔ ’سافٹ پاور‘ کا تصور متعارف کرانے والے امریکی سکالر جوزف نائے نے اسے دیگر ترجیحات کو شکل دینے اور جبر یا معاشی ترغیبات کے بجائے ”کشش“ کے ذریعے نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت کے طور پر بیان کیا۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے سافٹ پاور کو ”قائل کرنے اور تعاون کی طاقت“ قرار دیا اور اِس کا مقابلہ ”جبر کی طاقت“ کے ساتھ کیا جس کی نمائندگی فوجی اور معاشی قوت کی سخت طاقت سے ہوتی ہے۔ لیکن ’سمارٹ پاور‘ کا تصور متعارف کروا کر انہوں نے اس غلط فہمی کو درست کرنے کی کوشش کی کہ ایک کامیاب خارجہ پالیسی تیار کرنے کے لئے ’سافٹ پاور‘ اپنے آپ میں کافی ہوتی ہے۔ نائے کے لئے‘ سمارٹ پاور‘ ہارڈ اور سافٹ پاور کے وسائل کو یکجا کرنے اور کسی خاص سیاق و سباق میں جو بھی زیادہ مؤثر سمجھا جاتا ہے اسے لاگو کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ دلیل دیتے ہوئے کہ ایک سخت نقطہ نظر نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے انہوں نے متعدد ممالک کی مثال پیش کی جنہوں نے کامیابی سے سمارٹ حکمت عملی پر عمل کیا۔ اپنی بااثر کتاب ”دی فیوچر آف پاور“ میں انہوں نے چین کا حوالہ دیا‘ جہاں رہنماؤں نے سافٹ پاور میں سرمایہ کاری کی اور ملک کی فوجی اور معاشی طاقت میں اضافے کے ساتھ اِسے مزید پرکشش بنا دیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی تصورات کسی ملک کی ساکھ اور مقام کے لئے نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ درحقیقت‘ آج بڑی درمیانی اور چھوٹی طاقتوں کا طرز عمل اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہ سب سافٹ پاور کو اختیار کرکے اپنے ہارڈ پاور اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ جو اُن کے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں مددگار ہوں اور انہیں بین الاقوامی سفارتکاری میں زیادہ مؤثر طریقے سے شامل ہونے کے قابل بنائیں۔ یہ بالکل بھی ”سافٹ پاور کا خاتمہ“ نہیں بلکہ کسی ملک کی ساکھ اور مثبت امیج کا تسلسل ہے اور یہ اثر و رسوخ کی جنگ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عالمی طاقتیں جو فوجی اور معاشی طاقت رکھتی ہیں وہ سافٹ پاور کو اپنی حکمت ِعملی میں ضم کرتی ہیں اور اس پر فراخدلانہ وسائل خرچ کرتی ہیں کیونکہ اس سے ان کے اثر و رسوخ کو بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ چین آج سافٹ پاور پروجیکشن میں مصروف ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کی حالیہ ثالثی نے اس کی سافٹ پاور میں اضافہ کیا ہے۔ یہ عالمی بیانیے کو تشکیل دینے کی کوششوں کو بھی تیز کر رہا ہے یقینا مغربی ممالک طویل عرصے سے کامیابی کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں۔ ہر ملک کی خوبیاں اور کمزوریاں ہوتی ہیں۔ پاکستان بھی ایسا ہی ہے۔ درحقیقت پاکستان کے پاس سافٹ پاور کے بہت سے وسائل موجود ہیں لیکن ان پر کم توجہ دی گئی ہے حالانکہ اِس سے بین الاقوامی سفارت کاری میں منظم طریقے سے شامل ہوا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے دیرینہ بین الاقوامی ’امیج‘ کے مسئلے کو دیکھتے ہوئے‘ جس کی ایک وجہ غلط بیانی ہے اور دوسری وجہ زمینی حقائق ہیں‘ کے لئے سافٹ پاور اور بھی ضروری ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی مثبت سماجی و اقتصادی خصوصیات اور فنون لطیفہ‘ تہذیب‘ موسیقی اور ثقافت کے مالا مال ورثے کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ اس میں پاکستان مخالفین کی کوششیں ناکام ہوں گی جو پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر ایک غلط بیانیہ تشکیل دیئے ہوئے ہیں۔ آج‘ بین الاقوامی سطح پر سافٹ پاور بیانئے کے تحت حکمت عملیاں تشکیل پا رہی ہیں لیکن سب سے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’قومی برانڈنگ‘ کتنی ضروری اور اہم ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ اپنا سفارتی کردار بڑھا کر گلوبل سافٹ پاور لیگ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ اس کے لئے سب سے پہلے سافٹ پاور کی اہمیت تسلیم کرنا ہوگی جس کے لئے ضروری ہے کہ سافٹ پاور وسائل کی نشاندہی کرکے انہیں اپنی خارجہ پالیسی کی حکمت عملیوں اور سفارتکاری میں تصوراتی طور پر شامل کیا جائے۔ بشکریہ: ڈان، ترجمہ: ابوالحسن امام)