امریکہ کی شدید مخالفت اور شدید ترین دباؤ کے باوجود ’عرب لیگ‘ کے بہت سے ارکان نے بارہ سال بعد ’شام (Syria)‘ کی رکنیت بحال کرتے ہوئے اِسے لیگ (تنظیم) میں شامل کر لیا ہے۔ مسلمان ممالک کی یہ قربت کئی لحاظ سے اہم ہے اور گزشتہ دو ماہ کے دوران امریکی سفارتکاری کے لئے یہ دوسرا بڑا دھچکا ہے۔ مارچ میں چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا مذاکرات خطے میں امریکہ کے پہلے سے ہی کم ہوتے ہوئے اثر و رسوخ کے لئے دھچکا ثابت ہوئے جسے خود امریکی تجزیہ کاروں نے سفارتکاری کی ناکامی اور امریکی مفادات کے لئے ’مہلک‘ قرار دیا ہے۔ ایران سعودی عرب دوستی کے بعد شام کی عرب لیگ میں واپسی سے مشرق وسطیٰ میں نئے دور کا آغاز ہوا ہے اور یہ دور امریکہ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تنہائی کو بھی عیاں کر رہا ہے‘ جسے واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔وقت ہے کہ امریکہ اپنی حکمت عملیوں پر نظرثانی کرے۔ امریکہ کی موجودہ حکومت بائیڈن انتظامیہ کو نئی حقیقت کا سامنا کرنے اور ماضی کے فریب دور کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لئے کس طرح اور کس کس کا مقابلہ کرے گا۔ کئی دہائیوں میں پہلی بار واشنگٹن کمزور دکھائی دے رہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے تھیٹر میں اپنی جگہ بنانے کے لئے جدوجہد پر آمادہ ہے۔ ایک جرات مندانہ اور بے مثال اقدام کے طور پر عرب وزرائے خارجہ قاہرہ میں ’عرب لیگ‘ کے ایک غیر معمولی اجلاس کے لئے اکٹھا ہوئے اور ایک دہائی سے زائد عرصے کی معطلی کے بعد شام کی رکنیت کی بحالی کا اعلان کیا۔ چند ارکان کے تحفظات کے باوجود اس اہم فیصلے کو عرب لیگ کی کونسل میں منظور کیا گیا اور اس سے کونسل اور اس کی مختلف ذیلی تنظیموں اور اداروں کے تمام اجلاسوں میں شام کی شرکت کی بحالی میں مدد ملی ہے جو فوری طور پر سات مئی دوہزارتیئس سے نافذ العمل ہوئی ہے اور یہ خطے کے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں اہم تبدیلی کی نشاندہی ہے۔ اس طرح کے فیصلے کی مہم میں تین اہم عوامل نے اہم کردار ادا کیا ہے‘ جسے رواں برس کے آغاز پر ناقابل فہم سمجھا گیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ کی بتدریج عدم دلچسپی اور انخلا کی پالیسی‘ شام و ترکی میں تباہ کن زلزلہ اور مارچ کے مہینے میں ایران سعودی مصالحت میں چین کی کامیاب ثالثی۔ ان تینوں عوامل کے باہمی اثر نے ایک ایسا ماحول پیدا جو بالآخر شام کی عرب لیگ میں واپسی پر منتج ہوا ہے۔ شام کی عرب لیگ میں شمولیت وسیع تر علاقائی جغرافیائی سیاسی تبدیلی میں اہم پیش رفت ہے جس میں نئے سفارتی اتحادوں کا سلسلہ دیکھا جا رہا ہے اور اِس سے موجودہ علاقائی نظام درہم برہم دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران ریاستوں نے خود مختاری کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ ایک نئے کھلاڑی چین نے خطے کی غالب طاقت کے طور پر امریکہ کے کردار کا مقابلہ کرتے ہوئے اور ایران سعودی عرب معاہدے کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی الگ شناخت بنائی ہے۔ چھ فروری کو آنے والے تباہ کن زلزلوں نے ’شام‘ کے کچھ حصوں کو متاثر کیا جو اب بھی جنگ کی تباہ کاریوں سے دوچار ہیں اور اِس کے بعد شام پر عائد پابندیوں کا از سر نو جائزہ لینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا کیونکہ ’شام‘ انتہائی بنیادی و ضروری امداد حاصل کرنے کے لئے بھی محتاج تھا اور اُسے جدوجہد کرنا پڑ رہی تھی۔ ان عوامل نے مل کر ایک بے مثال علاقائی تعاون کی تشکیل نو کی راہ ہموار کی ہے جس کے آنے والے وقت (مستقبل قریب) میں ڈرامائی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شام کی عرب لیگ میں شمولیت ’شام‘ کے دو بنیادی اور درپیش سنگین چیلنجوں (جاری تنازعہ اور مالی دباؤ) کا کوئی پائیدار حل فراہم نہیں کرتی لیکن ’عرب لیگ‘ میں واپسی سے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔امریکہ کی شدید مخالفت کے باوجود عرب لیگ کے اِس فیصلے سے دو فوری نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں ایک یہ کہ طویل عرصے کی تنہائی کے بعد شام کو دوبارہ اہمیت ملی ہے اور یقینی طور پر دمشق کے لئے یہ ایک علامتی فتح ہے۔ دوم‘ ایک وسیع تر علاقائی صف بندی تشکیل پا رہی ہے جس میں امریکہ کا اثر و رسوخ پہلے سے کم ہو رہا ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عمران خالد ترجمہ: ابوالحسن امام)