ہمارے بچوں کے لئے

پاکستان میں زیادہ تر بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ بچوں کی اکثریت میں ’آئرن (فولاد)‘ کی کمی پائی گئی ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے گزشتہ کئی برس سے جاری محنت کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور یہ وسیع پیمانے پر بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کو متاثر کر رہی ہے جس کی وجہ سے قومی پیداواری صلاحیت متاثر ہے۔ نیشنل نیوٹریشن سروے آف پاکستان کے مرتب کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا ًآدھے یعنی انچاس اعشاریہ ایک فیصد بچے ’آئرن کی کمی‘ کا شکار ہیں یعنی اُن کے جسم میں خون کی کمی ہے۔ مزید برآں‘ پاکستان میں سکول جانے والے بچوں کی اکثریت کیلشیم‘ آئرن‘ زنک اور وٹامن اے جیسے ضروری مائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی کا شکار ہیں۔ وٹامن بی اور وٹامن سی کی کمی بھی بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما کو متاثر کر رہی ہے جبکہ پروٹین کی ناکافی مقدار اور ضرورت سے زیادہ چربی اور کاربوہائیڈریٹ کا استعمال غذائی عدم توازن کا باعث ہے۔ غذائی کمی کے معاشیات پر بھی دور رس اثرات و نتائج مرتب ہو رہے ہیں‘ جن میں کمزور نشوونما‘ بار بار کی بیماری‘ تھکاوٹ اور صلاحیت کی کمی جیسے عوامل شامل ہیں اور اِن کی وجہ سے بچوں کی تعلیم کے معمولات متاثر ہوتے ہیں۔ غذائی قلت کے بنیادی نتائج میں سے اہم ترین کمزور نشوونما ہے۔ جب بچوں کو مناسب غذائیت کی کمی ہوتی ہے‘ خاص طور پر آئرن کی تو اُن کا جسم مناسب طریقے سے بڑھ اور نشوونما نہیں کرتا۔ اس کے نتیجے میں جسمانی نشوونما کا عمل رک سکتا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں کے مقابلے میں کم تر رہ جاتے ہیں۔ سٹنٹنگ نہ صرف ان کی جسمانی ظاہری شکل کو متاثر کرتی ہے بلکہ ان کی مجموعی نشوونما میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہے اور طویل مدتی صحت کے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔فولاد کی کمی کا علمی صلاحیت پر بھی نقصان دہ اثر پڑتا ہے۔ دماغ کی نشوونما اور کام کرنے کے لئے مناسب غذائیت ضروری درکار ہوتی ہے۔ جب بچوں میں آئرن کی کمی ہوتی ہے تو‘ ان کی علمی صلاحیتوں پر سمجھوتہ کر لیا جاتا ہے‘ جس سے ان کی یادداشت‘ توجہ کی مدت‘ مسئلہ حل کرنے کی مہارت اور مجموعی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اس سے سیکھنے کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے اور دانشورانہ صلاحیتوں میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ صحت کے سنگین مضمرات کے علاوہ‘ مائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی معاشی بوجھ بھی ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کی ہیلتھ اکنامکس شعبے کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی نشوونما میں کمی کی وجہ سے ہونے والا سالانہ معاشی نقصان تقریبا تین ارب ڈالر ہے‘ جو جی ڈی پی کے ایک اعشاریہ تینتیس فیصد کے مساوی ہے اور جس میں چھ سے تیئس ماہ کی عمر کے بچوں کو علاج معالجہ فراہم کرنے پر ایک کروڑ نوے لاکھ ڈالر خرچ آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں سال دوہزاربیس میں سکول جانے والے بچوں کی صحت اور غذائیت کے سروے سے یہ پریشان کن حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ بچوں کی خوراک میں فولاد کی ناکافی مقدار ہے۔ یہ خطرناک اعداد و شمار خاص طور پر سندھ و پنجاب میں پاکستانی بچوں میں غذائی قلت اور آئرن کی کمی کے مستقل اور وسیع مسئلے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ بچوں میں غذائیت کی کمی سے متعلق مذکورہ بحران سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا کہ بچوں کو اچھی خوراک تک رسائی حاصل ہو اِنہیں ابتدائی بچپن ہی میں فولاد پر مبنی خوراک دینی چاہئے جس کا مؤثر طریقہ ”فورٹیفائیڈ غذا“ ہے۔ اِس قسم کی غذا میں وٹامنز اور منرلز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ بچوں کو ماں کا دودھ پلانا چاہئے  اور جب اُن کی عمر ماں کا دودھ پینے سے بڑھ جائے تب اضافی غذائیں متعارف کرائی جاتی ہیں اور یوں بچے دودھ سے ٹھوس غذاؤں کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔ بچوں کی وقت کے ساتھ غذائی ضروریات پورا کرنے کے لئے فولاد سمیت دیگر ضروری غذائی اجزأ کی فراہمی کے لئے قومی فیصلہ سازوں کو حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ (مضمون نگار یونیورسٹی آف سان فرانسسکو‘ کیلیفورنیا امریکہ میں ہیلتھ پالیسی اینڈ لیڈرشپ میں گریجویٹ فیلو ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فوزیہ وقار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)