مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے موقف کو شکست کا سامنا ہے اور اس ضمن میں کچھ حوصلہ افزا خبروں سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ بھارت زیادہ بین الاقوامی دباؤکے تحت آ سکتا ہے کہ وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اپنی پوزیشن تبدیل کرے، ایک ایسا علاقہ جو اس نے اگست 2019 میں مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کر کے عملی طور پر الحاق کر لیا تھاجسے پاکستان اور چین سمیت بہت سارے ممالک نے تسلیم نہیں کیا اور اس دوران مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں میں بے تحاشا اضافہ بھی ہوگیا ہے، جس کی طرف اقوام متحدہ نے بار بار اشارہ کیا ہے۔ کشمیر پر بھارتی فوجیوں کے قبضے اور اس کے سیاسی رہنماؤں کے خلاف بدسلوکی کو دنیا نے واضح طور پر دیکھا ہے۔ اور اب چین جو کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے نے یہ کہہ کر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اس ماہ کے آخر میں سری نگر میں بھارت کی طرف سے منعقد ہونے والی سیاحت سے متعلق G20 ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔ چین کا موقف بتاتا ہے کہ دنیا کو بھارت کے روئیے کا نوٹس لینا چاہئے جو ایک طرف تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور ساتھ دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے ان کو سیاحت کے لبادے میں متنازعہ علاقے میں مدعو کرکے اس کی حیثیت کو بدلنے کی کوشش میں بھی مصروف ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عمل میں زیادہ سے زیادہ ممالک شامل ہوں جو چین نے بھارت کے سازش کو ناکام بنانے کی صورت میں کیا ہے۔ دوسرے ممالک کیلئے ضروری ہے کہ وہ کشمیر پر چین کے مضبوط موقف میں شامل ہوں تاکہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی قابض افواج کی بہیمانہ زیادتیوں کو بین الاقوامی سطح پر آشکارہ کیا جاسکے اور بھارت کے جنگی جرائم کو بے نقاب کیا جاسکے۔ لگتا ہے کہ ترکی سری نگر میں سیاحت سے متعلق سربراہی اجلاس میں شرکت کے حوالے سے اپنے موقف میں چین کی پیروی کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے بھی کہا ہے کہ بھارت کو کشمیر پر ہونے والی زیادتیوں اور متنازعہ موقف کو معمول پر لانے کے لئے بین الاقوامی سربراہی اجلاس کا استعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس سے آگے بڑھنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ ساتھ ہی بھارت، جو مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ رکھنے میں ہی عافیت سمجھتاہے، نے ان حالات میں بھی دوغلے پن کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک جاپانی میڈیا ایجنسی کو دیئے گئے ریمارکس میں، ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی، جو ملک کا دورہ کر رہے ہیں نے وہی بے سروپا الزامات کا سلسلہ جاری رکھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں تجویز دی تھی کہ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں نرمی لائی جا سکتی ہے لیکن یقینا ایسا کچھ بھی بھارت کے ٹھوس اقدامات کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ سری نگر میں ہونے والی سیاحتی سربراہی کانفرنس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ بھارت کا کشمیر پر اپنے موقف کو تبدیل کرنے یا مقبوضہ کشمیر کے شہریوں اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ جو ناروا رویہ اختیار کیا ہے اسے کم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کے خلاف دنیا کو کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ دوسرے G20 ممالک میں چین کے ساتھ ایسا کرنے کا جذبہ موجود ہے اور وہ بھارت کو مزید دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی اجازت نہیں دیں گے۔چین کی طرف سے جو اصولی موقف اپنایا گیا ہے اس نے بھارت کو مشکل میں ضرور ڈالا ہے تاہم یہ امید رکھنا خوش فہمی ہوگی کہ بھارت مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کیخلاف ورزیاں ترک کردیگا۔(بشکریہ دی نیوز‘ تحریر:ثناء بتول‘ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام