آب و ہوا کا مسئلہ

رواں ہفتے محکمہ موسمیات (پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ) کی ماہانہ رپورٹ (مارچ دوہزارتئیس) جاری ہوئی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مارچ میں اوسط سے بیالیس فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔ گزشتہ سال پاکستان کو تباہ کن سیلاب کی صورت میں موسمیاتی تبدیلی کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور سیلاب کی وجہ سے ’تیس ارب ڈالر‘ کا نقصان ہوا۔ یونیسیف کے مطابق”تباہ کن سیلاب کے چھ ماہ بعد‘ چھیانوے لاکھ سے زیادہ بچوں کو اب بھی ضروری و بنیادی ضروریات و سہولیات کی ضرورت ہے۔ مذکورہ سیلاب نے ملک کے بہت سے حصوں میں تعلیم و صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا۔ توجہ طلب ہے کہ دوہزاربائیس کے مذکورہ سیلاب کی ہولناکی ابھی ختم یا کم نہیں ہوئی کہ بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں ایک بار پھر موسلا دھار بارشوں کے باعث سیلاب آنے کی پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ ساو¿تھ ایشین کلائمیٹ آو¿ٹ لک فورم (ایس اے ایس سی او ایف) کی رپورٹ کے مطابق جون اور ستمبر میں سندھ اور بلوچستان میں ’معمول سے کم‘ بارشیں ہوں گی۔ اسی طرح انتہائی گرم موسم اور مختصر سردی ایک عام رجحان بنتا جا رہا ہے۔ یہ سب آب و ہوا (موسمیاتی) تبدیلی کے منفی اثرات کا نتیجہ ہیں۔آب و ہوا کی تبدیلی امیر ممالک کے غیر مستحکم ترقیاتی عمل کے نتیجے میں ہو رہی ہے۔ ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے عدم تحفظ اور معاشی چیلنجز سے دوچار ہیں۔ امیر ممالک کی جانب سے گرین کلائمیٹ فنڈ (جی سی ایف) میں سالانہ ایک سو ارب ڈالر جمع کرنے کا وعدہ بھی تاحال پورا نہیں ہوا۔ جی سی ایف نے اب تک بارہ ارب ڈالر جمع کئے ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے کئی منصوبوں پر کام شروع کر رکھا ہے۔ اِن 216 منصوبوں میں سے اَسی فیصد پر عمل درآمد جاری ہے‘ جس سے کروڑوں افراد کو آب و ہوا کے خطرات سے بچایا جائےگا۔ اسی طرح موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے خسارے اور نقصانات سے متعلق بھی ایک فنڈ (ایل اینڈ ڈی) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو ترقی پذیر ممالک کے ماحولیاتی نقصانات کو واپس لانے کی ذیل میں ایک اہم پیش رفت ہے لیکن مذکورہ فنڈ کا درست استعمال کس طرح یقینی بنایا جائے گا یہ ایک الگ نوعیت کا چیلنج ہے۔ آب و ہوا سے متاثرہ ممالک کو آب و ہوا کی وجہ سے درپیش آفات سے بچنے کے لئے کوششیں تیز کرنے اور اِس شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے لڑنے کے لئے اپنائی جانے والی حکمت عملی کے دو اہم اجزا¿ ہیں ایک تخفیف اور دوسرا موافقت۔ پاکستان کو ماحول دوست اقدامات (موافقت) میں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر مالی اعانت اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ تخفیف سے مراد وہ تمام اقدامات ہیں جو کاربن (مضر ماحول گیسوں) کے اخراج کو کم کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ تخفیف کی کوششوں کے تحت‘ کاربن کے اخراج کو مرحلہ وار ختم کرنے کے مقصد سے ماحول دوست منصوبوں کی مالی اعانت کی جا سکتی ہے۔پاکستان کو شمسی توانائی سے فائدہ اُٹھانے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ اور کوئلے سے چلنے والی بجلی پر وقت کے ساتھ انحصار کم سے کم کرنا چاہئے۔ پہلے مرحلے میں سرکاری دفاتر اور گھروں کو مکمل طور پر شمسی توانائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ہر شہر میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کی ترقی سے بھی ماحول دشمن اقدامات میں تخفیف ممکن ہے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کے نظام کو برقی گاڑیوں پر منتقل کرنے سے پاکستان میں کاربن کے اخراج کی بڑی مقدار کم کی جا سکتی ہے لیکن اس طرح کے اقدامات و اصلاحات نافذ کرنے کے لئے آب و ہوا کی بہتری میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور جب تک ترقی یافتہ ممالک اِس کی مدد نہیں کرتے اُس وقت تک خاطرخواہ بہتری پر مبنی نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ ماحول دشمن گیسوں (کاربن) سے نمٹنے کے لئے جنگلات کے رقبے میں اضافہ ضروری ہے۔ اگرچہ جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد ہے لیکن جنگلات کی کٹائی جاری ہے اور بااثر افراد جنگلات جیسے قومی وسائل کو ذاتی اثاثوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے لڑنے کے لئے دوسرا اہم جزو موافقت ہے۔ موافقت سے مراد ان تمام خیالات منصوبوں سے ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی کے چیلنجوں کے مطابق عوام کی طرز زندگی کو تبدیل کرنے سے متعلق ہیں اور اِن اصلاحات سے ماحول کے تحفظ کی کوشش میں مدد لی جا سکتی ہے۔ موافقت کی متعدد تکنیک موجود ہیں جو لوگوں کو آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی نتائج کم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ پاکستان کو سب سے پہلے‘ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے زرعی شعبے کی اصلاح کرنی چاہئے جس میں تحقیق و تربیت اور ترقی کا فقدان ہے اور اِس کی وجہ سے غذائی تحفظ بھی خطرے سے دوچار ہے۔ کاشتکاروں کو قدم قدم رہنمائی فراہم کی جائے تو اصلاح ممکن ہے۔ فصل کی بوائی اور کٹائی کے اوقات کو ایڈجسٹ کر کے آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات کو اپنے حق میں مفید بنایا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور سیلاب روکنے کے لئے موافق حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ پانی کے ذخائر تعمیر کئے جائیں۔ پاکستان موسمیاتی اثرات سے متاثرہ ملک ہے اور اِس کی مدد کرنے کے لئے جو وعدے اور اعلانات کئے گئے ہیں اُنہیں عملی جامہ پہنانے اور دنیا کو پاکستان کو درپیش چیلنجز سے آگاہ کرنے کے لئے بھی مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ تخفیف و موافقت کی حکمت عملی کو خاطرخواہ تیز رفتاری سے نافذ کیا جاسکے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ ابوالحسن امام)