غذائی قلت

پاکستان میں بچوں کی کل آبادی کا ایک تہائی یا تین کروڑ چالیس لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں یہ تعداد دنیا کے بیشتر ممالک کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ غذائی قلت کی اِس صورتحال کو مزید سنگین بنانے کے لئے چوالیس فیصد سے زیادہ (تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ) بچے‘ جن کی عمریں پانچ سال سے کم  ہیں‘ حسب عمر جسمانی و ذہنی نشوونما سے محروم ہیں۔ غذائی قلت اگر زیادہ عرصے رہے تو اِس سے پیدا ہونے والا لاغر پن طبی اصطلاح میں ’اسٹنٹنگ‘ کہلاتا ہے اور اِس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ بچے اپنی عمر کے لحاظ سے قد اور ذہانت میں چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ یہی مرض (اسٹنٹنگ) بعض انتہائی صورتوں میں بچوں کی اموات کا باعث بھی بنتا ہے اور اسٹنٹ بچے اپنی حقیقی جسمانی اور علمی صلاحیت تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔ جب بچوں کو مناسب و متوازن غذا نہیں مل رہی ہوتی تو اِس سے ریاست کی ناکامی ظاہر ہوتی ہے۔ غذا کی کمی بچے کی پیدائش کے دن سے شروع ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے پندرہ فیصد بچے غذائی قلت اور اِس کی وجہ سے لاحق ہونے والے امراض کے سبب متاثر ہوتے ہیں۔ یہاں متاثر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے دبلا پتلا یا چھوٹا رہ جاتا ہے اور اُس کا جسمانی وزن نہیں بڑھتا۔ ریاست کی جانب سے ایسے لاکھوں بچوں کو سہارا ملنا چاہئے۔حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان میں آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح ’2.48 فیصد‘ ہے جس کی وجہ سے پاکستان دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی والے ممالک میں سے ایک ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والے ’جی ڈی پی‘ شرح نمو کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ملک کی معیشت 0.29 فیصد کی مایوس کن شرح سے بڑھی ہے اور اِس کے بارے میں بھی شکوک و شبہات موجود ہیں چونکہ معیشت کی اقتصادی ترقی کی شرح آبادی میں اضافے کی شرح سے کم ہے اِس وجہ سے معاشرے کے سب سے کمزور طبقات غیر متناسب طور پر معاشی بحران سے متاثر ہوتے ہیں اور جب کسی طبقے کی آمدنی کم ہوتی ہے تو وہ درکار غذائی ضروریات اور غذائیت حاصل نہیں کر پاتا اور اِس سے غذائی بحران میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پاکستان میں غذائی افراط زر پچاس فیصد سے تجاوز کر گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں خوراک گزشتہ سال کے مقابلے میں اِس سال پچاس فیصد زیادہ مہنگی ہے چونکہ مہنگائی کے تناسب سے آمدنی میں اضافہ نہیں ہو رہا اِس لئے گھرانوں کا بجٹ حقیقی معنوں میں سکڑرہا ہے اور وہ گزشتہ سال کے مقابلے اِس سال خوراک پر پہلے سے کم خرچ کر رہے ہیں۔ خوراک کا خرچ برداشت کرنے میں یہ ناکامی غذائیت کے بحران کو مزید بڑھا رہی ہے‘ جس سے اُن بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے جو یا تو غذائی قلت کا شکار ہیں اور اِس غذائی قلت کی وجہ سے اپنے خاندان اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں خاطرخواہ مثبت کردار ادا نہیں کر پا رہے۔پاکستان موجودہ سیاسی بحران یا معاشی بحران سے نکل سکتا ہے لیکن اگر بہت دیر ہو گئی تو یہ بحران یا غذائی قلت کے بحران سے نکلا نہیں جا سکے گا۔ جیسے جیسے غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ اسی طرح آبادی کا بحران بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی آبادی کا بڑا حصہ ہے بچوں یا بالغ نوجوان پر مشتمل ہے۔ ریاست کی جانب سے انہیں حسب ضرورت غذائی مواد فراہم کرنے میں ناکامی ایک ایسی صورتحال کا باعث بن سکتی ہے جہاں اُن کی علمی صلاحیتوں کو فروغ نہیں مل سکے گا اور اس وجہ سے اِن کی پیداواری صلاحیت میں بھی کمی آئے گی جو ’معاشی ترقی‘ میں حصہ نہیں ڈال سکے گی۔ آبادی میں اضافے کی شرح سے معاشی ترقی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی آمدنی (قوت خرید) میں کمی ہو گی اور خوراک کی دستیابی بھی کم ہوجائے گی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی ملک کی آبادی کا بڑا حصہ غذائی قلت کا شکار ہو تو اُسے تعلیم یافتہ بنانے یا تربیت سے ہنرمند کرنے میں بھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ تعلیم یا انسانی سرمائے کی ترقی کے ذریعے طویل مدتی فوائد (پیداواری صلاحیت میں اضافے کی صورت) حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ باالفاظ دیگر خوراک جیسی جسمانی ضرورت کو پورا کرنا پہلی ضرورت ہوتی ہے اور اِس کے بعد ہی تعلیم و تربیت جیسے مراحل کی تکمیل کی جاسکتی ہے۔ بچوں میں مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کی کھانے پینے کی ضروریات ترجیحی بنیادوں پر پوری کی جائیں اور اِس سلسلے میں ریاست اگرچہ ناکام رہی ہے لیکن اگر اب ترجیحات کا تعین کیا جائے تو صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ قومی و معاشی ترقی کے لئے ایک پائیدار وسیع بنیاد حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں پچیس کروڑ افراد کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے غذائی تحفظ یقینی بنایا جانا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عمار محبوب خان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)