بڑی طاقتوں کے درمیان دشمنی کوئی نیا واقعہ نہیں ہے جیسا کہ تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے۔ لیکن ایک جوہری دور میں اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی یافتہ دنیا جس میں معیشتیں جڑی ہوئی ہیں، اس نے ایک نئی جہت حاصل کی ہے۔ یہ مواقع کے ساتھ ساتھ غیر متوقع نتائج اور خطرات بھی پیش کرتا ہے، خاص طور پر درمیانے درجے کے ممالک کے لئے جو اپنی اقتصادی استحکام کے لئے چین اور امریکا دونوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، موجودہ منظر نامے کی باریک اور گہری تفہیم پاکستان کو جغرافیائی سیاسی تنازعات سے مثبت معنوں میں فائدہ اٹھانے کے لیے خود اسٹریٹجک پوزیشن فراہم کرتی ہے۔ ماضی کی طرح ایک طرف جھکا ﺅ نہیں ہونا چاہئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں امریکہ کے چین کے ساتھ بہت قریبی اقتصادی اور تجارتی تعلقات ہیں، وہیں اس کے بڑھتے ہوئے سٹریٹجک اور سیاسی تسلط پر بھی اسے گہری تشویش ہے۔ صدر بائیڈن نے اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح دیسی صنعت کو فروغ دے کر چین سے درآمدات کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ لیکن پھر بھی دفاعی اور سٹریٹیجک صنعتوں میں استعمال ہونے والے کچھ اہم اجزا ہیں جن کے لیے دونوں ممالک فی الحال ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور جب تک وہ اپنی پیداوار نہیں بناتے تب تک ایسا کرتے رہیں گے۔ صدر بائیڈن بھی اپنے یورپی شراکت داروں پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ چین اور روس پر انحصار کم کرنے کی اسی پالیسی پر عمل کریں۔ اور جیسا کہ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ روسی تیل اور گیس کی درآمدات اس سال کے دو ماہ کے آغاز میں تقریبا 100 فیصد کم ہو کر 2.2 بلین یورو سے 4.2 ملین یورو رہ گئیں۔ اسی طرح روس سے کوئلے کی درآمد میں بھی زبردست کمی دیکھی گئی۔ یورپی یونین اور امریکہ دونوں کی سرکاری پالیسی بنیادی طور پر حساس ٹیکنالوجی پر برآمدی کنٹرول کو لاگو کرنے کی رہی ہے جسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور تجارت میں کمی یا کمی نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ ان کے فائدے کے لئے یکساں ہے۔ امریکی وزیر خزانہ جینٹ ویلن نے پہلے کہا تھا کہ "امریکہ نے چین سے الگ ہونے کی کوشش نہیں کی، ایسا نتیجہ جو دنیا کے لیے تباہ کن اور عدم استحکام کا باعث ہو گا۔" بعد ازاں مئی میں ہیروشیما سربراہی اجلاس نے چین کے نقطہ نظر کی مکمل حمایت کرتے ہوئے مزید واضح کیا کہ یہ خطرے کو کم کرنے پر مبنی ہے، نہ کہ دوگنا کرنے پر۔امریکہ اور مغرب کی چین کے حوالے سے جو پالیسیاں اپنائی گئی ہیں وہ بہت واضح ہیں۔ جہاں تعاون سے انہیں فائدہ ہوتا ہے، وہ آگے بڑھتے رہیں گے لیکن اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کسی بھی تجارتی لین دین سے انکار کیا جائے گا جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر چین کی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے میں معاون ہو۔ تاہم تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جب چین کو ہائی ٹیک اشیا کی برآمدات پر پابندیاں لگائی گئیں تو اس نے اپنی صلاحیت خود تیار کی۔ گزشتہ برسوں کے دوران، چین نے اپنے طلبا کو بیرون ملک کی اعلی غیر ملکی یونیورسٹیوں، زیادہ تر امریکہ اور یورپ میں بھیج کر اور ملک کی یونیورسٹیوں میں R&D کو ترجیح دے کر کافی نفیس R&D انفراسٹرکچر تیار کیا ہے۔ ابتدائی طور پر، اور اب بھی یہ ریورس انجینئرنگ کرتا ہے جہاں ٹیکنالوجی کا حصول مشکل ہے۔چونکہ چین اور امریکہ کے تعلقات ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں، بیجنگ کی مرکزی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ قریبی تعلقات کو فروغ دینے کی بنیادی توجہ مشرق وسطی کی ریاستوں، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور یمن پر مرکوز رہی ہے جو روایتی طور پر بہت قریب رہے ہیں۔ بہت سے ممالک چین کو طاقت کا ایک آسان مرکز سمجھتے ہیں تاکہ وہ امریکہ پر اپنے مضبوط جھکا ﺅکو متوازن کر سکےں۔ یہ اقدام قابل فہم طور پر امریکہ کی ناراضگی کا باعث ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ تعلقات اور سفارتی تعلقات کی بحالی دونوں ممالک کی جانب سے اپنے سٹریٹجک اور سفارتی لیوریج کو بہتر بنانے کے لیے ایک اور اسٹریٹجک اقدام ہے۔ سابق جرمن چانسلر انجیلا مرکل جیسی ذہین رہنما نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ اور چین اپنی تجارتی جنگ میں ملوث ہو کر دوسرے ممالک کے مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔چین اور امریکہ کے درمیان جو مسابقت اس وقت جاری ہے وہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں ہے اور اس کے اثرات بھی تمام ممالک پر مرتب ہورہے ہیں۔ چین کی کوشش ہے کہ وہ امریکہ کو پیچھے چھوڑ جائے جبکہ امریکہ اس کیلئے تیار نہیں اور وہ بھی بھر پور مقابلہ کرنے کی حالت میں ہے ۔ حالیہ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ جب سابق صدر ٹرمپ آزاد تجارتی معاہدے اور ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ سے نکلے تو دیگر 11 ارکان نے جامع اور ترقی پسند معاہدے کے تحت اپنا تعاون جاری رکھا۔ یہ مثالیں دینے کا مقصد اس بات کو اُجاگر کرنا ہے کہ کس طرح ممالک مشکلات کے باوجود اپنے مفادات کی پیروی کرتے رہتے ہیں۔ قابل ذکر ہے سنگاپور کی کامیابی، ایک چھوٹی جزیرے کی ریاست جس نے ایک انتہائی موثر اور عوام کے لئے ذمہ دار حکومت کے ذریعے ملک کی حیثیت اور پروفائل کو بلند کیا۔ میں اپنے پچھلے مضامین میں مثال دیتا رہا ہوں کہ کس طرح ممالک نے جغرافیائی تزویراتی ماحول کے تحت اعلی اقتصادی ترقی کی حکمت عملی اور سفارت کاری کے ذریعے حاصل کی ہے۔ہمارے سیاسی رہنماﺅں کو اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ پاکستان دو بڑی طاقتوں کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات سے کس حد تک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ موجودہ دنیا میں یہ ممکن ہے، لیکن بہت زیادہ نفاست اور توازن کا تقاضا کرتا ہے ۔پاکستان کا محل وقوع مثالی ہے وہ وسطی ایشیاءکا دروازے پر واقع ہے اور چین کی کوشش ہے کہ وہ امریکہ کا مقابلہ کرنے کیلئے وسطی ایشیاءمیں اپنے اثر رسوخ میں اضافہ کرے جہاں پر امریکہ نے حال ہی میں توجہ مرکوز کی ہے اور یہ علاقے جو روس کے زیر اثر تھے اب امریکہ کی نظر میں ہیں۔ اسلئے پاکستان چین کی اس سلسلے میں مددکرکے اپنی اہمیت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
( بشکریہ ،ایکسپریس ٹریبیون،
تحریر: طلعت مسعود، ترجمہ: ابوالحسن امام)