’بارٹر ٹریڈ‘ کی حقیقت

پاکستان کی معیشت کم اس وقت ’شدید دباو¿‘ کا شکار ہے۔ قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو مسلسل کم ہو رہی ہے۔ سال 2022-23ءکے شرح نمو کا ہدف 2 فیصد رکھا گیا تھا جس میں 0.29 فیصد کمی آئی ہے! زرعی‘ صنعتی اور خدمات کے شعبوں میں سست روی نے ملک کی مجموعی ترقی (شرح نمو) کو منفی ہونے کی وجہ سے متاثر کیا ہے۔ اِس وجہ سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کا ’آئی ایم ایف پروگرام‘ بھی متاثر ہوا جس کی بحالی کے لئے سات ماہ سے کوششیں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ میکرو اکنامک استحکام کی طرف بڑھتے رہنے کے لئے‘ حکومت کو اپنی اقتصادی پالیسی کی تشکیل میں مدد کی ضرورت ہے۔ اس کے جواب میں کہ حکومت پاکستان نے حال ہی میں ایران‘ افغانستان اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈنگ معاہدے کا اعلان کیا ہے‘ جس کے تحت پاکستانی کمپنیوں کو ڈالر یا غیر ملکی کرنسیوں کے استعمال کے بغیر ساز و سامان کی تجارت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ بھی اسی طرح کا ایک معاہدہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چین یا امریکہ کا انتخاب کرنے سے پہلے ہمیں ’ڈی ڈالرائزیشن‘ کی ابتدا اور پاکستان کی معیشت پر اس کے اثرات کو سمجھنا ہوگا۔ سال دوہزارچودہ میں روس نے مغربی اقتصادی پابندیوں کے جواب میں ’ڈی ڈالرائزیشن‘ کو ترجیح دی تھی جس کے نتیجے میں سرکاری اداروں اور بینکوں کی مغربی منڈیوں تک رسائی محدود ہو گئی۔ بڑھتے ہوئے اقتصادی تعاون کے طور پر‘ ماسکو نے بیجنگ کو اتحادی بنایا جو اس کے ڈی ڈالرائزیشن اقدام کی حمایت اور اِسے کامیاب بنانے میں مدد کرے۔ چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے سال دوہزارچودہ میں ماسکو کا دورہ کیا اور روس کے ساتھ 38 معاہدوں پر دستخط کئے جن کی مالیت ڈیڑھ سو ارب یوآن (تقریبا پچیس ارب ڈالر) تھی اور اِن معاہدوں میں توانائی کے شعبے میں تعاون بھی شامل ہے۔ اس معاہدے میں سال دوہزارسترہ میں مزید تین سال کی توسیع کی گئی تھی۔ امریکہ کی جانب سے چینی درآمدات پر نمایاں محصولات کے نفاذ اور سال دوہزاراٹھارہ میں امریکہ و چین کے درمیان تجارتی جنگ کے آغاز کے نتیجے میں روس و چین اپنی باہمی تجارت میں ڈالر کو استعمال کرنے سے مزید دور چلے گئے۔ گزشتہ سال چین اور روسی صدور نے دوطرفہ تجارتی تصفیے کے لئے اپنی اپنی کرنسیوں کو استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا اگرچہ روس اور چین ڈی ڈالرائزیشن ٹریڈ پر مل کر کام کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اہداف ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ وقت کے ساتھ ’ڈی ڈالرائزیشن‘ پر عمل درآمد سست ہوجائے گا۔ روس جارحانہ انداز میں تجارت اور لین دین کو ڈی ڈالرائز کرنے کے مقصد سے اقدامات (کوششیں) کر رہا ہے لیکن چین کئی وجوہات کی بنا پر ایسا کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔ روس کی حکومت اپنی برآمدات اور درآمدات کی ادائیگی کے لئے نئے مواقع تلاش کرنے پر مجبور ہے۔ واضح ہے کہ روس کی کوششوں سے کرپٹو کرنسیوں میں سرمایہ کاری بڑھی ہے۔ روس و چین کے مختلف معاشی مقاصد کے نتیجے میں‘ ان کے مابین تعلقات مثالی سطح پر نہیں اور روس کو اپنے ریزرو ہولڈنگز میں نقصان اور اس کے ادائیگی کے نظام میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پالیسی سازوں کو یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کا حجم معمولی ہے‘ جو مغربی تجارتی شراکت داروں کے مقابلے میں تقریبا پانچ ارب ڈالر سالانہ سے بھی کم ہے۔ پاکستان کے پاس صلاحیت ہے کہ وہ بارٹر تجارتی معاہدوں میں امریکی ڈالر پر انحصار کم کرے تاہم پاکستان مکمل ڈی ڈالرائزیشن کی طرف نہیں جا سکتا۔ بارٹر تجارتی معاہدوں میں شامل ہونے سے پہلے‘ پاکستان کو اپنی برآمدی بنیاد کو وسیع اور متنوع بنانے‘ اپنے نقل و حمل کے نیٹ ورک اور بندرگاہوں کو ترقی دینے اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے علاو¿ہ توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر بھی کرنی ہے جو معاشی بحران کے دور میں آسان نہیں ہے۔ سٹیگ فلیشن پر قابو پانے کے لئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو رقوم کی فراہمی میں کمی اور شرح سود میں اضافے کے ذریعے سکڑتی ہوئی مانیٹری پالیسی پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بے روزگاری کا مقابلہ اور انفراسٹرکچر‘ انسانی سرمائے‘ پبلک ورکس اور اس طرح کے دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے اپنے اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھا کر ایک توسیع پسندانہ مالیاتی پالیسی کو نافذ کرنے کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ سٹیٹ بینک کو اپنی ڈیجیٹل کرنسی بنانا ہوگی کیونکہ دنیا بھر کے بڑے مرکزی بینک فعال طور پر نئی کرنسی کی تلاش کر رہے ہیں۔ حکومت اور سٹیٹ بینک کے لئے یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ وہ رائے عامہ کو ہموار رکھتے ہوئے اصلاحات کریں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مالیاتی پالیسی کسی بھی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ آخر میں حکومت اور مرکزی بینک کو ان تمام مسائل کا سامنا کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہوگی جو مالیاتی اور مالیاتی پالیسیوں کو لاحق بحران ہیں اور بین الاقوامی سطح پر اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ معاملات کرتے وقت ایک مشترکہ فریم ورک پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس تمام صورتحال میں اس حقیقت کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ مسائل راتوں رات پیدا نہیں ہوئے بلکہ یہ ایک طویل عرصے میں معاشی اصلاحات اور موثر اقدامات نہ ہونے کا نتیجہ ہے اور ان مسائل کو ختم بھی راتوں رات نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کوایک مربوط و منظم منصوبہ بندی سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے اور ضروری ہے کہ اس مرحلے پرتمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میںلیا جائے تاکہ مستقبل کی معاشی منصوبہ بندی میں کوئی کمی نہ رہ جائے جس کے باعث اٹھائے گئے اقدامات غیر موثر ہوجائیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر حافظ عثمان رانا۔ ترجمہ ابوالحسن امام)