امریکہ : غیر معمولی حیثیت 

گزشتہ ماہ کے اوآخر میں ہنری کسنجر نے اپنی سویں سالگرہ منائی۔ کسنجر نے صدر نکسن کے دور میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں ویتنام جنگ‘ 1970ءکی دہائی میں اسرائیل عرب جنگ اور سرد جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کے بعد سے امریکہ اور چین ایک دوسرے کے مدمقابل آ چکے ہیں۔ آج بھی کسنجر جغرافیائی سیاست کی دنیا میں ایک قابل شخصیت ہیں سفارتکاری میں فعال کردار ادا کرنے کے دوران کسنجر ’حقیقی سیاست‘ کے اصول پر کام کرنے کےلئے جانے جاتے تھے جسے سفارتی معاملات چلانے اور دیگر ممالک کے ساتھ وسیع تعلقات قائم کرنے کے لئے حقیقت پسندانہ اور عملی نقطہ نظر کے طور پر آج بھی یاد اور بیان کیا جاتا ہے۔ جب ہم کسنجر کے نقطہ نظر پر گہری نظر ڈالتے ہیں تو وہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ امریکہ کو اپنے حقیقی مفادات کی بنیاد پر دیگر ممالک کے ساتھ معاملات کرنے کے لئے لچکدار نقطہ نظر اپنانا چاہئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ دیگر ممالک کے مفادات اور ضروریات کو سمجھے اور اِس سمجھ بوجھ کے اصولوں پر منحصر تعلقات کو آگے بڑھایا جائے۔ کسنجر ایسے اتحادی ممالک سے لاتعلق رہنے کی حکمت عملی رکھتے تھے جن کا امریکہ کے عالمی اہداف میں کوئی کردار نہ ہو اور یہی آج کے امریکہ کی حکمت عملی بھی ہے کہ وہ اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد دوست ممالک کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ حقیقی سیاست بنیادی طور پر ایک نقطہ نظر اور طریقہ ہے جس میں اصول اور طویل مدتی اقدار مختصر یا وسط مدتی فوائد کے حصول سے کم اہمیت رکھتے ہیں۔ کسنجز نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ کو ممالک کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنے کی ضرورت ہے جیسے وہ ہیں نہ کہ جیسا ہم (امریکہ) چاہتے ہیں۔ دی اکانومسٹ میگزین کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو میں کسنجر نے تیسری عالمی جنگ سے بچنے کے لئے حل تجویز کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کو اپنے اتحادیوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ وہ اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے باوجود‘ یاداشت اور ذہانت کا بھرپور و درست استعمال کر رہے ہیں۔ اُن کے زیادہ تر تبصرے امریکہ اور چین کے درمیان تیزی سے بگڑتے ہوئے تعلقات کو سنبھالنے کے بارے میں ہیں۔ وہ دانشمندی سے کہتے ہیں کہ آج کی دنیا کی ترقی کا انحصار اِس بات پر ہے کہ امریکہ اور چین ایک ساتھ (اکٹھا) چل سکتے ہیں یا نہیں اور اِس بارے میں دونوں ممالک کی قیادت کو ایک دوسرے سے متصادم ہونے کی بجائے مشاورت کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ کسنجر کی حقیقی سیاست سے وابستگی اس وقت زیادہ توجہ کا مرکز بن جاتی ہے جب وہ بھارت کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ بھارت کے ساتھ معاملات میں امریکہ کو اپنے مفادات کو ترجیح دینی چاہئے اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ موجودہ یا سابقہ امریکی انتظامیہ نے بھارت کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے کسی امریکی معاشی یا سلامتی کے مفاد کو ترک کیا ہو لیکن کسنجر نے متنبہ کیا کہ بھارت کے ساتھ معاملہ کرنا امریکہ کی قیادت کا امتحان ہے۔ کسنجر امریکی انتظامیہ پر زور دے رہے ہیں کہ جب بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کی بات آتی ہے تو وہ مصلحت سے کام لیتے ہیں اور ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ درحقیقت دنیا بھر میں اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی نگرانی کے لئے امریکی حکومت کی جانب سے قائم کردہ ادارے ’یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجس فریڈم نے سفارش کر رکھی ہے کہ بھارت میں اقلیتوں سے امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ اُنہیں مذہبی آزادی حاصل نہیں بھارت میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں اور لاکھوں کی تعداد میں عیسائیوں کے علاو¿ہ نچلی ذات کے ہندوو¿ں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جس کے حوالے سے دنیا خدشات کا اظہار کرتی ہے لیکن امریکہ اپنے مفادات کے لئے بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم امریکہ کا دورہ متوقع ہے جس دوران ’وائٹ ہاو¿س‘ میں اُن کا ہائی پروفائل استقبال اور قانون ساز کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اُن کے خطاب کی تیاریاں جاری ہیں اور یہ اعزاز بہت ہی کم غیر ملکی رہنماو¿ں کو دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے عملی مفاد کےلئے سبھی اصولوں کو قربان کر رہا ہے جو وہ دیگر ممالک پر بھی مسلط کرتا ہے اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ کسنجر سمیت امریکہ میں رائے عامہ چاہتی ہے کہ بھارت میں امتیازی سلوک اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں امریکہ کا رویہ تبدیل ہونا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: قیصر شریف۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)