تعلقات کی بحالی



پاکستان اور روس دوطرفہ سفارتکاری اور تجارت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں یہ تبدیلی غیر متوقع اور غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے‘ خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے بعد جو پاکستان اور روس ممالک کے لئے تعاون کا ”سنہرا دور“ تھا۔ اُنیس سو ستر کی دہائی میں روس کی مدد سے پاکستان میں بہت سے اچھے کام ہوئے۔ پھر ملک ضیا الحق کے مارشل لا¿ کا شکار ہوا اور افغانستان میں امریکی مداخلت کا ساتھ دیا۔ افغان مزاحمت اور سرد جنگ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ ختم ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی روس کا تجارت کے لئے گرم پانی کی بندرگاہوں کی طرف جانے کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا۔ افغان سے امریکی انخلا¿ کے بعد کسی بھی حکمت ِعملی پر فیصلہ کئے بغیر خطے کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ۔ چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ قربانیاں دینے کے باوجود‘ پاکستان کو امریکہ نے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ افغان انخلا¿ کے بعدخطے میں دوررس اہمیت کی حامل تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔امریکہ جس حالات میں افغانستان سے نکلا ہے وہ دنیا نے دیکھ لیا۔ اگرچہ پاکستان نے افغان مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے میں امریکہ میں بہت مدد کی اور امریکہ کو افغانستان کی دلدل سے نکلنے کا باعزت و محفوظ راستہ فراہم کیا لیکن پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود اِسے اہم اتحادی ہونے اور افغانستان کا سٹیک ہولڈر ہونے جیسا مقام و اعتماد حاصل نہیں ہو سکا۔ مالی محاذ پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی گزشتہ چند برس میں پاکستان سے منہ موڑ رکھا ہے اور اس کے پیچھے بھی امریکہ کا ہاتھ ہے ۔ تعجب خیز ہے کہ پاکستان جیسے اتحادی اور وسائل سے مالا مال ملک کو محض ایک ارب ڈالر کے لئے ’کوفت‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اِس عرصے میں چین نے خاص طور پر پاکستان کی مدد کی ہے اور بلاشبہ چین و روس پاکستان کی ایک ایسے وقت میں مزید مدد کر رہے جبکہ آئی ایم ایف‘ واشنگٹن اور مغربی اتحادی پاکستان کو نظرانداز کر رہے ہیں۔یقینا علاقائی تعاون ایک اہم موقعہے۔تمام تر مشکلات کے باوجود پہلا روسی تیل سے بھرا بحری جہاز (کارگو) پاکستان پہنچ چکا ہے۔ یہ کوششیں یقینی طور پر مستقبل میں تعاون کی مزید اور نئی راہیں کھولیں گی۔ توقع ہے کہ روس و پاکستان کے درمیان توانائی راہداری سے دوطرفہ تعاون کو فروغ ملے گا۔ شاید یہ اقتصادی تعاون اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا شاندار ماضی بحال کرنے کا بہترین وقت ہے۔ پاکستان اس وقت توانائی اور تجارت کمی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے معیشت‘ سٹاک ایکس چینج اور برآمدات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ روس یوکرین کے ساتھ تنازع کی وجہ سے معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ اُسے یوکرین کی پشت پناہی کرنے والی امریکہ اور نیٹو کی مخالفت کا مقابلہ کرنا ہے۔ یوکرین میں روس کے خصوصی فوجی آپریشن کے نتیجے میں اس کے مالی اور انسانی وسائل کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوا ہے لیکن روس اب بھی نسبتاً مستحکم ہے جبکہ یوکرین کا دیوالیہ ہوچکا ہے۔ یوکرین کی معاشی بدحالی نے پہلے ہی کم ترقی یافتہ ممالک میں اناج کی قلت پیدا کردی ہے یہاں تک کہ یورپی ممالک میں بھی اس کا منفی اثر دیکھا جا سکتا ہے اگرچہ اب تک یوکرین کو تقریباً تیئس ارب ڈالر کی امریکی و مغربی فوجی امداد مل چکی ہے لیکن وہ اب بھی امریکہ پر انحصار کر رہا ہے۔ امریکہ خطے میں چین کی اُبھرتی ہوئی طاقت بالخصوص سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کو ناکام دیکھنا چاہتا ہے جس کے لئے وہ روس کو سانس لینے کا موقع نہیں دے رہا اور اِس صورتحال میں پاکستان کو امریکہ و مغرب اور اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات متوازن رکھنے میں محتاط رہنا ہوگا۔پاکستان کے لئے روس کا تعاون جامع اور طویل مدتی ہونا چاہئے۔ وسطی ایشیائی جمہوریہ‘ سوویت یونین کی سابقہ ریاستیں اور آج کا روسی فیڈریشن پاکستان کی سلامتی‘ معیشت اور توانائی جیسے بحرانوں سے نمٹنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ دوطرفہ تعلقات دیگر ضمنی امور سے بالاتر ہونے چاہئیں۔ دونوں ممالک کو سرد جنگ کی نئی حکمت عملی اور نیٹو کے توسیعی منصوبوں کے خلاف سٹریٹجک تعلقات بہتر بنانے کے لئے چند جرا¿ت مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ہمیں کسی بھی ایسے اتحاد میں شامل ہونے کے لئے تیار و آمادہ رہنا چاہئے جس سے علاقائی رابطے‘ امن اور تعاون کو تقویت ملے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اور ایشیائی خطے میں ممالک کے درمیان اعتماد کیسے بحال ہو گا اِس حوالے سے ممالک کا اتحاد خطے میں پاکستان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے۔ آج کی اقتصادی ہم آہنگی تمام علاقائی ممالک کے مفاد میں ہے اور اگر ایسا کر لیا جاتا ہے تو اِس سے بالخصوص یوریشین سپر براعظم کو متحد کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور کوئی بھی نیا عالمی منصوبہ دوبارہ خطے کو غیرمستحکم اور متاثر نہیں کر سکے گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: منیر خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)