ایک ایسا دور کہ جس میں تکنیکی جدت طرازی اور مختلف شعبوں میں اہم کامیابیاں حاصل کی جا رہی ہیں اور مصنوعی ذہانت سے بھی توقعات وابستہ ہیں تو وقت ہے کہ ٹیکنالوجی کو محدود نہیں بلکہ غیرحدود سمجھا جائے اور اِس تبدیل شدہ منظرنامے میں ایک مکمل اور نئی حقیقت کا ادراک کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ممالک ٹیکنالوجی کو اپنا رہے ہیں اور ٹیکنالوجی سے متعلق اپنی صلاحیت میں اضافہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھے گا اور وہی قومیں اُبھر کر سامنے آئیں گی جنہوں نے اپنے ہاں ٹیکنالوجیز کو اہمیت دی ہوگی‘ فی الوقت دنیا کے 69 ممالک میں مصنوعی ذہانت سے لیس ٹیکنالوجی سے متعلق حکمت عملیاں وضع کر لی گئی ہیں‘ گزشتہ چند برس سے ماہرین بار بار اس بات کو اُجاگر کر رہے ہیں کہ پاکستان کو مصنوعی ذہانت زیادہ سے زیادہ قبول کر تے ہوئے اِسے قومی حکمت عملی کے طور پر اختیار کرنے کو یقینی بنانا چاہئے۔ وزارت ِانفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام کی طرف سے پاکستان کی قومی مصنوعی ذہانت پالیسی کا اجرا¿ کیا گیا ہے جو ایک خوش آئند پیشرفت ہے‘ اکتالیس صفحات پر مشتمل مذکورہ دستاویز میں مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کو فروغ دینے اور پاکستان کو ٹیکنالوجی سے بااختیار ملک میں تبدیل کرنے کے اہداف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد مصنوعی ذہانت کے بارے میں عوامی آگاہی پیدا کرنا‘ ہنرمند انسانی سرمائے کی ترقی اور موجودہ افرادی قوت کو ہنر مند بنانا‘ تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری‘ قومی مصنوعی ذہانت فنڈ قائم کرنا‘ مصنوعی ذہانت کے مراکز میں سرمایہ کاری‘ مصنوعی ذہانت اور متعلقہ ٹیکنالوجیز کےلئے بہتر انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے‘ یہ سماجی اور شہری مسائل حل کرنے‘ اس کے استعمال میں ذمہ دارانہ طرز عمل کو یقینی بنانے‘ ریگولیٹری میکانزم تیار کرنے‘ بہترین طریقوں کو فروغ دینے اور مصنوعی ذہانت کے ماڈل تک رسائی کو یقینی بناتے ہیں اور اِن کا مقصد مصنوعی ذہانت کے ذریعے شعبہ جاتی مدد فراہم کرنا ہے اور ٹیکنالوجی کے ساتھ تعلیمی اداروں کو بھی مستقبل کی ضروریات کی فراہمی کے قابل بنانا ہے‘ مذکورہ پالیسی ہدایات کے چار مرکزی نکات ہیں‘ مارکیٹ کی اہلیت‘ مصنوعی ذہانت کے بارے میں آگاہی اور تیاری‘ ترقی پسند اور قابل اعتماد ماحول کی تعمیر اور تبدیلی و ارتقا‘ قومی مصنوعی ذہانت کی پالیسی کا آغاز مثبت پیش رفت اور اہم ضرورت ہے‘ پالیسی نسبتًا جامع ہے اور مختلف شعبوں میں ٹیکنالوجی کو مربوط کرنے کے بارے میں تفصیلی روڈ میپ فراہم کرتی ہے‘ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کا مقصد خاص طور پر زراعت اور مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں کے روایتی کام کاج کو تبدیل کرنا ہے‘ جو پاکستان کے معاشی منظر نامے کےلئے انتہائی اہم ہیں‘ صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم اور شہری پورٹل سمیت عوامی خدمات میں مصنوعی ذہانت کے روزگار پر زور دینے سے عوامی خدمات کی فراہمی کو زیادہ مو¿ثر بنایا جاسکتا ہے۔ یہ دیکھنا بھی حوصلہ افزا¿ ہے کہ پالیسی دستاویز میں مصنوعی ذہانت کی راہ میں خواتین کی شمولیت کو ترجیح دی گئی ہے‘ درپیش چیلنجز میں سب سے پہلے مخصوص ڈیٹا قوانین کی عدم موجودگی ہے جس کی وجہ سے پالیسی کو باضابطہ بنایا گیا ہے تاہم موجودہ حالات میں اس حوالے سے مربوط کوششوں کی کمی بھی ظاہر ہو رہی ہے ‘ پاکستان کو مصنوعی ذہانت کے مقابلے میں انسانی وسائل سے جڑے مسائل کا بھی سامنا ہے ‘ اس کےلئے بہتر تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہے جو مشین لرننگ‘ پروگرامنگ اور ڈیٹا سائنس جیسے شعبوں میں مہارت رکھتی ہو تاکہ ممکنہ فوائد حاصل کئے جا سکیں‘ دوسرا اہم مسئلہ ’برین ڈرین‘ کا ہے‘ جس کی وجہ سے باصلاحیت افراد دوسرے ممالک میں بہتر روزگار کے مواقع کی تلاش میں نقل مکانی کر رہے ہیں‘مذکورہ پالیسی اگرچہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر زیادہ زور دیتی ہے لیکن یہ عمل آسان نہیں بلکہ اِس میں متعدد رکاوٹیں اور ساختی چیلنجز موجود ہیں‘ پاکستان کا مصنوعی ذہانت کا انتخاب درست اقدام ہے اور اِس میں ترقی کے بے مثال مواقع موجود ہیں لیکن ساتھ ہی زبردست چیلنجز بھی جڑے ہوئے ہیں۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: شذا عارف۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
امریکی امداد کی بندش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بلاول بھٹو کی پیشکش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاکستان اُور تجارتی جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت کی طاقت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اسباب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پانی کی معدودی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
یورپ: غیریقینی کی صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت میں اضافہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت اُور ترجیحات ِحکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
خطرناک ہتھیار
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام