طب کے شعبے میں کسی مریض کی جراحت (سرجری) اُس وقت ضروری ہو جاتی ہے جب کہ اُس کی طبی حالت اِس حد تک خراب ہو کہ یہ اُس کی زندگی کے لئے خطرہ بن گئی ہو۔ مزید برآں‘ جب طبی حالات یا بیماریاں وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ خراب ہو رہی ہوں تب بھی سرجری ضروری ہو جاتی ہے۔ نئے مالی سال دوہزارتیئس چوبیس کے لئے مجموعی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات 36.6 ارب ڈالر ہے جو خطرہ کی نشاندہی کر رہا ہے۔ 1950ء سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی رکنیت ختم کرنے کے لئے جو انتظامات و اقدامات کئے گئے ہیں وہ سب کے سب ’غیر سرجیکل‘ تھے جبکہ لاحق بیماری کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقی ضرورت ’سرجیکل علاج‘ کی ہے۔ ایک دہائی قبل‘ پاکستان کے ذمے واجب الادأ قرضوں کی ادائیگی کے لئے ایک ارب روپے مختص کئے جاتے تھے لیکن آج یہ رقم بڑھ کر 153 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ یہ صورتحال واضح طور پر قرضوں میں اضافے کی صورت ملک کی بیمار مالی حالت کی نشاندہی کر رہی ہے۔پاکستان کو جو مرض لاحق ہے اُس کی تشخیص مکمل ہو چکی ہے اور اب مرض کے علاج کا فیصلہ کرنے کا وقت ہے۔ مناسب سرجیکل آلات کا انتخاب کرنے اور علاج کے طریقہ کار کے دوران اضافی ماہرین یا عملے کی ضرورت پورا کرنے کا وقت ہے۔ پہلا مرحلہ وفاقی حکومت میں چونتیس وزارتیں‘ اڑتالیس ڈویژنز اور چار سو سے زائد محکمے ہیں۔ تیرہ سال قبل پاکستان کے آئین میں اٹھارویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی نے منظور کی تھی جس کے بعد صوبوں کو قومی آمدنی کا بڑا حصہ منتقل ہونے لگا چونکہ زیادہ تر وفاقی محکمے صوبوں کو سونپ دیئے گئے تھے اِس لئے وفاقی سطح پر صرف پانچ وزارتوں کی ضرورت تھی۔ اِن میں خزانہ‘ خارجہ امور‘ مواصلات‘ دفاع اور محصولات (ٹیکس وصولی) شامل تھے لیکن وفاقی وزارتیں ختم نہیں کی گئیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ اٹھارہ وزارتیں وفاق میں بھی قائم ہیں اور وہی وزارتیں مختلف ملتے جلتے ناموں سے صوبوں میں بھی قائم ہیں۔ جو قومی خزانے پر بوجھ ہے اور اِس بوجھ کو سرجری کے ذریعے ہٹانا پڑے گا جس کے علاؤہ کوئی دوسری صورت نہیں ہے۔دوسرا مرحلہ: نئے مالی سال کے دوران وفاقی حکومت صوبوں کو مجموعی طور پر ’5276 ارب روپے‘ دے گی اور اِس ادائیگی کے بعد وفاق کے پاس 6 ہزار 887 ارب روپے بچ جائیں گے جبکہ وفاقی حکومت کو 7 ہزار 303 ارب روپے قرضوں کی اقساط اور سود کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ واضح ہے کہ سرکاری قرضے صرف اسلام آباد کی حدود میں خرچ نہیں کئے گئے لہٰذا قرضوں کی ادائیگی میں صوبوں کو بھی حصہ ڈالنا چاہئے لیکن صوبے یہ قرض اپنے ذمے نہیں لینا چاہتے اور اب چونکہ وفاقی حکومت کی آمدنی کم ہو گئی ہے اِس لئے صوبوں کو قرضوں کا بوجھ منتقل کرنے کے علاؤہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا۔تیسرا مرحلہ: نئے مالی سال میں دفاع کے لئے 1804 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور اگر یہ رقم دفاع پر خرچ کی جاتی ہے جو ایک نہایت ہی ضروری اور اہم خرچ ہے تو پھر وفاقی حکومت کے پاس قرضوں کی ادائیگی کے بعد کچھ نہیں بچتا اِس کے علاؤہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔چوتھا مرحلہ: وفاقی حکومت کی 90 ہزار گاڑیاں گزشتہ چار سال کے دوران ’220 ارب روپے‘ پھونک چکی ہیں۔ برطانوی حکومت گورنمنٹ کار سروس (جی سی ایس) چلاتی ہے جو سرکاری عہدیداروں اور وزرأ کو نقل و حرکت جیسی خدمات فراہم کرتی ہے۔ ’جی سی ایس‘ برطانیہ کے کابینہ دفتر کے کنٹرول میں کام کرتی ہے اور یہ سول سروس کا حصہ ہے۔ جی سی ایس کے پاس کل 86 سرکاری گاڑیاں ہیں۔ پاکستان یعنی وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ وفاقی اداروں کے زیراستعمال 89 ہزار 914 سرکاری گاڑیاں واپس لے۔ پانچواں مرحلہ: پاکستان کے 200 سے زیادہ ایسے سرکاری ادارے ہیں جن کا مجموعی سالانہ نقصان 2 ہزار ارب روپے ہے اور یہ قومی خزانے پر بوجھ ہے لیکن اِس بوجھ کو ختم کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کئے جا رہے۔ قومی خزانے پر اِس بوجھ کو فوری طور پر کم کرنے کی ضرورت ہے۔ چھٹا مرحلہ: بجٹ 2023-24ء میں اسلام آباد کی تعمیروترقی کے لئے 950 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ اسلام آباد کی کل آبادی 20 لاکھ ہے اور یہ 80 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا شہر ہے۔ اسلام آبادکی زیادہ سے زیادہ ضرورت 50 ارب روپے کی ہے۔ ترقی زیادہ اخراجات سے نہیں ہوتی اِس لئے قومی خزانے پر زیادہ ترقیاتی اخراجات کا بوجھ کم کرنے اُور بچت کی ضرورت ہے۔ساتواں مرحلہ: بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے لئے نئے مالی سال دوہزارتیئس چوبیس کے لئے حکومت نے 450 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اسلام آباد میں ملک کی آبادی کا ایک فیصد رہتا ہے لہٰذا اسلام آباد کے لئے یہ مختص رقم صوبوں کو منتقل ہونی چاہئے جن کی ضرورت بظاہر اور یقینا زیادہ ہے۔ یہ بات ذہن نشین اور پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ کسی بھی مریض کا فوری علاج (سرجری) اُس کے لئے زندگی یا موت جیسا اہم ہو سکتا ہے اُور وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ:اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام