یوکرین حملہ

یوکرین نے روس کےخلاف جوابی کاروائی کا آغاز کر دیا ہے جس کا مقصد روس کے زیر قبضہ علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنا اور روسی فوجیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنا ہے‘ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق ’یوکرین کی افواج نے کم از کم تین علاقوں میں جوابی کاروائی کی ہے‘ روسی فوج اور سرکاری حکام نے بھی اِن حملوں کی تصدیق کی ہے لیکن دونوں فریق کامیابی کے متضاد دعوے کر رہے ہیں۔ یوکرین کے نائب وزیر دفاع ہنا میلر کے مطابق یوکرین کی کاروائی کئی سمتوں میں ہو رہی ہے لیکن یوکرین نے تاحال اِن حملوں کی مکمل تفصیلات جاری نہیں کیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ ’یوکرین کے بڑے پیمانے پر جوابی حملے کسی بھی علاقے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔‘ روس کی وزارت ِدفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے مشرقی ڈونیٹسک کے علاقے میں یوکرین کے بڑے پیمانے پر حملے کی مزاحمت کی ہے۔ اپنے بیان میں روسی فوج نے ڈھائی سو یوکرینی شہریوں کو ہلاک کرنے اور حملے میں استعمال ہونے والی متعدد بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ اعداد و شمار اور دعوے چار جون سے جاری لڑائی کی شدت میں اضافے کو ظاہر کر رہے ہیں۔ یہ صرف جارحانہ کاروائی کا آغاز ہے جو اگلے چار ماہ تک جاری رہ سکتا ہے اور آنےوالے ہفتوں اور مہینوں میں مختلف محاذوں پر مزید شدید لڑائیاں ہونےکا امکان ہے‘ دونوں فریقوں کے دعوو¿ں کی تصدیق آسان نہیں‘ روس اور یوکرین ایک دوسرے کےخلاف ’پروپیگنڈا جنگ‘ میں بھی مصروف ہیں اور یوکرین کو بظاہر اِس جنگ میں فائدہ ہوا ہے کیونکہ اسے مغربی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ یوکرین کی حکومت کو اپنا پروپیگنڈا پھیلانے میں مدد کر دے رہے ہیں‘ آزاد مغربی فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حملہ صرف آغاز ہے‘ یوکرین کی افواج مختلف محاذوں پر روسی دفاعی طاقت کا امتحان لے رہی ہیں‘ یہ جنگ جو آنے والے ہفتوں میں پھیلے گی کے نتیجے میں مزید ہلاکتوں‘ تباہی اور انسانی مصائب میں اضافے کا امکان ہے‘ دونوں طرف مزید فوجی مارے جائیں گے۔ یوکرین میں محنت کش طبقہ پہلے ہی جنگ کی وجہ سے معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ یوکرین کی معیشت تباہ حال ہو چکی ہے جبکہ مغربی امداد اور قرضوں پر یوکر ین کی معیشت چل رہی ہے۔ روس کے خلاف یوکرین کا جوابی حملہ‘ موسم گرما سے موسم خزاں کے دوران جاری رہنے کا امکان ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پندرہ ماہ قبل شروع ہونے والی روس یوکرین جنگ میں یہ فیصلہ کن موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ یوکرین کی جانب سے روس کے دفاع کو توڑنا اور مقبوضہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے میں ناکامی کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ اس مرحلے پر جو صورتحال اُبھر کر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ روس یا یوکرین کسی کے حق میں مفید نہیں ہے اور جنگ کے صحیح نتائج کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن روسیوں کو واضح طور پر یوکرین کے خلاف برتری حاصل ہے۔ روس کے پاس جدید ہتھیاروں سے لیس زیادہ طاقتور فوج ہے جبکہ یوکرین کی فوجی طاقت اور دفاعی سازوسامان کی رسد امریکہ اور اِس کے اتحادی مغربی ممالک کی تنظیم ’نیٹو‘ پر منحصر ہے‘ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے عائد سخت پابندیوں کے باوجود روسی معیشت اب بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اقتصادی پابندیوں کا روسی معیشت پر بھی بُرا اثر پڑا ہے۔ روس کی ’جی ڈی پی‘ جنگ سے قبل جس رفتار سے نمو کر رہی تھی اب وہ سکڑ گئی ہے اور روس میں مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ روس کی خراب معاشی صورتحال وہاں کے غریبوں کےلئے نقصان کا باعث ہے اور امریکہ و مغرب کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کے باعث زیادہ تر شعبوں کےساتھ کاروباری اداروں اور افراد کو بھی اِن پابندیوں نے متاثر کیا ہے۔ اقتصادی پابندیوں نے روس کی معیشت کو اِس حد تک مفلوج نہیں کیا جتنا امریکہ اور اس کے اتحادی چاہتے تھے اور وہ روس کو باقی دنیا سے مکمل طور پر الگ تھلگ کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں‘ اس صورتحال میں چین نہایت ہی خاموشی سے اہم کردار ادا کر رہا ہے‘ چین کی مدد روس کو مغرب کی طرف سے مسلط کردہ اقتصادی دباو¿ کا مقابلہ کرنے میں آسانی فراہم کر رہی ہے اور چین کے تعاون کا نتیجہ یہ ہے کہ روس جنگ پر زیادہ رقم خرچ کرنے کی مالی سکت رکھتا ہے۔ روسی جنگی صنعت مزید ہتھیار تیار کرنے کےلئے چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہے‘ روس کے پاس دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ہے لہٰذا وہ ضروری فوجی رسد کےلئے کسی ملک کا محتاج نہیں۔ دوسری طرف یوکرین کی معیشت خستہ حالی کا شکار ہے۔ ملک کا زیادہ تر بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے‘ یوکرین کی معیشت کو توانائی‘ ادویات اور خوراک کی فراہمی میں خلل کا سامنا ہے۔ مغربی طاقتیں پہلے ہی یوکرین کی حکومت کو اربوں ڈالر عطیہ دے چکی ہیں اور یوکرین کی فوج کو ٹینک‘ میزائل‘ راکٹ اور دیگر فوجی سازوسامان کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں‘ یوکرین کی حکومت روسی افواج کے زیر قبضہ کچھ علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے‘ یوکرین اس جنگ میں تعطل جیسی صورتحال ختم کرنا چاہتا ہے تاکہ روس سے بامعنی امن مذاکرات شروع کئے جا سکے اور روس پر مذاکرات کےلئے دباو¿ ڈالا جا سکے‘ اگر یہ کوشش روس کو ’بیک فٹ‘ پر دھکیلنے میں ناکام رہی تو روس بھرپور جوابی حملہ کرےگا اور یوکرین کی حوصلہ شکن فوج کو مزید نقصان پہنچائے گا لیکن جاری جنگ کی شدت میں اضافے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا‘ چین نے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدہ کرنےکی کوشش کی ہے لیکن وہ ناکام رہا کیونکہ امریکہ اور یورپی یونین نے چین کی زیر قیادت امن مذاکرات میں کسی بھی قسم کی دلچسپی ظاہر نہیں کی‘ حالیہ حملے کا مطلب یہی ہے کہ دونوں فریق (روس اور یوکرین) قیام امن یا خونی جنگ کے اختتام کے بارے میں نہیں سوچ رہے بلکہ وہ جنگ کی شدت میں اضافے کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتے ہیں جو ناممکن ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: خالد بھٹی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)