مستقبل کی ایک جھلک

مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلیجنس) اور کوانٹم کمپیوٹنگ (کیو سی) ٹیکنالوجی کے دو تیزی سے ترقی کرنے والے شعبوں میں تہذیبی انقلاب لانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ مذکورہ جدید ترین ٹیکنالوجیز میں سے ایک (مصنوعی ذہانت) کا تعلق سافٹ وئر سے جبکہ دوسرے (کیو سی) کا تعلق ہارڈ وئر سے ہے اور یہ ہماری زندگی کے تقریبا ًسبھی پہلوو¿ں کو تبدیل کر کے رکھ دے گا‘ جس سے طب‘ انجینئرنگ‘ ماحولیات‘ زراعت‘ صنعتی پیداوار‘ شہری ترقی‘ سائنسی تحقیق‘ کائنات کے بارے میں ہمارے علم و تفہیم اور ممالک کے درمیان جنگ یا تنازعات کے مستقبل پر بھی اِس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ کوانٹم کمپیوٹر عام کمپیوٹرز کے مقابلے میں بنیادی طور پر مختلف انداز میں کام کرتے ہیں۔ عموماً کمپیوٹر بٹس کو ڈیٹا کی بنیادی اکائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور وہ سیریل پروسیسنگ میں بائنری کوڈ (ون یا زیرو) کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں جبکہ اس کے برعکس‘ کوانٹم کمپیوٹر‘ کیوبٹ کو اپنے ڈیٹا کی اکائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ کیوبٹ ایک ہی وقت میں کئی ایک ہوسکتے ہیں‘ جو اِن ڈیٹا پروسسنگ کی صلاحیت کو ’روایتی‘ یا ’سپر کمپیوٹرز‘ سے بھی کہیں زیادہ طاقتور بنا دیتے ہیں نتیجتاً ایک ’کوانٹم کمپیوٹر‘ چند منٹوں میں ایسے مسائل حل کر سکتا ہے جنہیں حل کرنے میں تیز ترین سپر کمپیوٹر کو لاکھوں سال لگیں گے۔ سال 2019ءمیں سائیکامور نے ایک ایسا کام 200 سیکنڈ میں مکمل کیا تھا جس کے بارے میں گوگل نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے مکمل کرنے میں 10ہزار سال لگیں گے۔ ’کوانٹم کمپیوٹرز‘ کو اب ہزاروں کیوبٹ کے ساتھ ڈیزائن کیا جا رہا ہے‘ جس کے نتیجے میں پروسیسنگ پاور میں تیزی سے اضافہ ہوگا اُور اِس قسم کے کمپیوٹر بہت جلد مارکیٹ میں دستیاب ہوجائیں گے کیونکہ ٹیکنالوجی ساز کمپنیاں چھوٹے پیمانے پر ایسے کمپیوٹروں کو بنانے میں مصروف ہیں۔ کمپیوٹر انسانوں کی کس طرح مدد کر سکتے ہیں۔ اِس بات کو چند مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر مختلف اقسام کے سرطان (کینسر) کا علاج تلاش کرنے میں گزشتہ کئی دہائیوں میں کی گئی تحقیق اب بھی اُس مقام تک نہیں پہنچ سکی ہے جہاں اِس مرض (کینسر) کی کسی قسم کا علاج دریافت ہو سکے لیکن اب یہ ممکن ہو گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور کیو سی کا اشتراک نئی ادویات کی دریافت کے عمل میں انقلاب لا سکتا ہے۔ مختلف کینسر کے ممکنہ علاج کے لئے کن ادویات کی ضرورت ہو گی اِس بات کا فیصلہ اور کینسر کی قسم کی شناخت کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ تیزی کے ساتھ کرسکتا ہے اور خاص بات یہ بھی ہوگی کہ یہ کام زیادہ درستگی کے ساتھ سرانجام دیا جائے گا۔مصنوعی ذہانت‘ جب کیو سی کی پروسیسنگ پاور کے ساتھ مل کر میڈیکل امیجنگ ٹیکنالوجیوں کو بہتر بنا سکتی ہے‘ جس سے کینسر‘ امراض قلب اور اعصابی بیماریوں کی تیز اور زیادہ درست تشخیص ممکن ہو گی۔ یہ امتزاج مرض کے نمونوں کی شناخت میں مدد کے علاوہ بیماریوں کے جینیاتی رجحانات کو وسیع جینومک ڈیٹا سیٹ کی روشنی میں تجزیہ کرکے جینومکس کی مکمل صلاحیت بیان کر دے گا۔ پودوں اور جانوروں کی مختلف اقسام کے جینوم کی ساخت بھی معلوم ہو گی اور یوں لیبارٹریز میں جاری تحقیق تیزی سے نتائج دینے لگے گی۔ مصنوعی ذہانت اور کیو سی کا امتزاج مٹیریل سائنس اور نینو ٹیکنالوجی میں بھی جاری پیش رفت کو بھی تیز کرسکتا ہے‘ جس سے الیکٹرانکس‘ انرجی سٹوریج اور بائیو ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ اس سے ایسی ذہین مشینیں ایجاد ہوں گی جو پیچیدہ سے زیادہ پیچیدہ کاموں کو کم وقت اور درستگی کے ساتھ انجام دینے کی صلاحیت سے لیس ہوں گی۔ یہ انرجی گرڈز اور سٹوریج سے متعلق آپٹیمائزیشن سے کارکردگی اور قابل تجدید توانائی کے انضمام میں اضافہ کرے گا۔ عالمی زرعی پیداوار پر اِس ٹیکنالوجی کا اثر پڑے گا۔ مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کو موسمی نمونوں‘ مٹی کے حالات اور فصل کی جینیات کا تجزیہ کرنے کےلئے استعمال کیا جائے گا جبکہ ’کیو سی‘ تیزی سے بڑے ڈیٹا سیٹ کو پراسیس کر کے فصل کی پیداوار اور وسائل کے انتظام میں بہتری لائے گی۔ اس سے درست کاشتکاری کی تکنیک کو عملاً ممکن بنایا جاسکے گا‘ جس سے بشمول آبپاشی‘ کھاد کے بہتر استعمال اور فصل پر بیماریوں کے حملوں سے سے نمٹنے کی حکمت عملیاں وضع کی جا سکیں گی۔ ’کیو سی‘ کے ذریعہ بااختیار مصنوعی ذہانت الگورتھم کے ساتھ سنسرز اور سیٹلائٹ امیجنگ کے ’ریئل ٹائم ڈیٹا‘ کو مربوط کرکے‘ کسان زیادہ سے زیادہ پیداوار اور کیڑوں کو مو¿ثر طریقے سے کنٹرول کرنے کے لئے باخبر فیصلے کرنے کے قابل ہوں گے‘ جس سے مو¿ثر اور پائیدار زرعی طریقوں کا آغاز ہوگا۔ مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کے ساتھ ’کیو سی‘ سے متعلق ڈیٹا پروسیسنگ‘ ماحولیاتی نظام‘ جنگلی حیات کی آبادی اور آلودگی کی سطح حقیقی وقت کی نگرانی میں ممکن ہو جائے گی‘ جس سے غذائی تحفظ اور دستیاب وسائل کی بچت جیسے شعبوں میں مدد ملے گی۔ اِسی طرح صنعتی شعبے میں بھی زبردست تبدیلیاں آئیں گی۔ تیار کردہ مصنوعات کے معیار کو انسانی محنت کے بغیر سختی سے کنٹرول کیا جانے لگے گا کیونکہ ’اے آئی الگورتھم‘ بے قاعدگیوں کا پتہ لگانے‘ ممکنہ نقائص کی پیش گوئی اور معیار کو برقرار رکھنے کے لئے معائنہ کاری کے طور طریقوں کو بہتر بنا سکتی ہے اُور اِس سے ’کیو سی صلاحیتوں‘ کا فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔ یہ نقائص اور فضلے کو کم سے کم کرتے ہوئے اعلی معیار کی مصنوعات کی پیداوار یقینی بنائی جائے گی۔ٹیکنالوجی کے وسیع استعمال سے سمارٹ شہر ابھریں گے کیونکہ مصنوعی ذہانت الگورتھم ٹریفک‘ توانائی کی کھپت اور عوامی خدمات سرانجام دینے کے لئے اعداد و شمار وضع کرے گی جبکہ کیو سی تیزی سے مختلف منظرناموں کا تجزیہ کر رہا ہوگا۔ ٹریفک مینجمنٹ اُور نقل و حمل کے نظام بھی تبدیلیاں آئیں گی کیونکہ ’اے آئی الگورتھم‘ ریئل ٹائم ٹریفک ڈیٹا کا تجزیہ کر رہا ہوگا اُور روٹنگ‘ ٹریفک بہاو¿اور نقل و حمل کو بہتر بنائیں گے جبکہ کیو سی ٹریفک کی بھیڑ بھاڑ کم کرنے اور مجموعی نقل و حمل کی کارکردگی بہتر بنانے سے جڑے مسائل کو حل کرسکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور ’کیو سی‘ کا امتزاج سائنسی سیمولیشن اور ماڈلنگ کے عمل کو تیز کرے گا‘ جس سے محققین کو طبیعیات‘ کیمسٹری اور حیاتیات جیسے شعبوں میں پیچیدہ مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ مصنوعی ذہانت اُور کیو سی کی مشترکہ طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے سائنسی دریافتوں کی رفتار کو تیز کرنا ممکن ہو گا‘ جس سے کائنات کے اسرار جیسا کہ ’ڈارک میٹلز (تاریک مادے) یا تاریک توانائی کے رازوں سے پردہ اُٹھ جائے گا جو مجموعی طور پر ہماری کائنات کا تقریبا پچانوے فیصد ہیں۔ مصنوعی ذہانت اور کیو سی کے درمیان ہم آہنگی کائنات کے بارے میں علوم اور کائنات کی حقیقت کے بارے میں افہام و تفہیم میں بھی معاون ثابت ہوگی۔کمپیوٹروں کے استعمال سے جنگ بھی ’مکمل انقلاب‘ سے گزرے گی۔ کیو سی کی پروسیسنگ پاور اے آئی الگورتھم کی کوآرڈینیشن اور ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ مل کر ڈرونز یا روبوٹک سسٹمز ایجاد ہوں گے جن کی بہتر رفتار اور درستگی کے ساتھ مشترکہ و ہم آہنگ کام کرنے کی صلاحیت (جنگی کاروائیوں) کو بہتر و ممکن بنایا جاسکے گا۔ کیو سی کے ذریعہ بااختیار نیچرل لینگویج پروسیسنگ (این ایل پی) الگورتھم غیر منظم اعداد و شمار کو منظم بنا کر اِن کا تجزیہ کرے گا۔ چیٹ بوٹس اور اس طرح کے دیگر ٹولز نے انسان کو اِس قابل بنا دیا ہے کہ وہ مستقبل کا تصور اور اِس کی جھلک زیادہ وضاحت سے دیکھ سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ذہین مشینیں زیادہ تر شعبوں میں انسانوں کی جگہ لے لیں گی۔۔ بشکریہ: دی نیوز، ترجمہ: ابوالحسن امام)