پلاسٹک کی وبائ

پلاسٹک کا استعمال اِس قدر بڑھ گیا ہے کہ اگر اِس سے خارج ہونے والی ماحول دشمن گیسیز کو ’ملک‘ تصور کیا جائے تو یہ چین‘ امریکہ‘ بھارت اور روس کے بعد دنیا میں ہاو¿س گیسوں کا اخراج کرنے والا پانچواں ’بڑا ملک‘ ہوتا۔ پلاسٹک ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔ جانوروں کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ’ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے پلاسٹک کے بڑھتے ہوئے استعمال اور اِس پر انحصار سے لاحق خطرات سے دنیا کو خبردار کیا ہے۔ پلاسٹک کے ساتھ دنیا کی محبت کا تاریک پہلو یہ ہے کہ یہ ہمارے سیارے پر پڑنے والا موسمیاتی اثرات و نقصانات کا مو¿جب ہے اور کرہ¿ ارض کو گرم کر رہا ہے۔ پلاسٹک‘ براہ راست گرین ہاو¿س گیس خارج نہیں کرتا لیکن چونکہ اِس کے اپنے آپ تحلیل ہونے کا عمل زیادہ ہوتا ہے اِس لئے یہ دنیا کے ’کاربن فٹ پرنٹ‘ میں اضافہ کرتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ پلاسٹک ایک ماحول دشمن ایندھن سے بنایا جاتا ہے اور یہ کہ پلاسٹک کی صنعت میں عالمی تیل کی کھپت کا چھ فیصد سے زیادہ حصہ شامل ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر‘ تیل نکالنے اور ڈسٹل کرنے کے لئے درکار توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے گرین ہاو¿س گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ گرین ہاو¿س گیسیں بڑے پیمانے پر عالمی موسمیاتی تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں اور اِن موسمیاتی تبدیلیوں میں کردار ادا کرتی ہیں جن کی وجہ سے برفانی تودے (گلیشیئرز) پگھلتے ہیں۔ سیلاب اور زیادہ شدید خشک سالی آتی ہے جو فصلوں کی اموات کی ذمہ دار ہیں اور جس کی حکومتوں اور مجموعی طور پر معاشرے کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ دنیا بھر میں ہر منٹ میں دس لاکھ پلاسٹک کی بوتلیں خریدی جاتی ہیں جبکہ دنیا بھر میں ہر سال پانچ کھرب پلاسٹک بیگز استعمال کئے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر‘ تیار کردہ تمام پلاسٹک کا نصف ایک بار استعمال کے لئے ڈیزائن کیا جاتا ہے یعنی یہ صرف ایک بار استعمال کیا جاتا ہے اور پھر پھینک دیا جاتا ہے لیکن پلاسٹک کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور اِس کا بار بار استعمال کرنا بھی تعجب خیز نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں اب تک پیدا ہونے والے سات ارب ٹن پلاسٹک کچرے میں سے دس فیصد سے بھی کم کو ری سائیکل ہو سکا ہے جبکہ باقی ماندہ پلاسٹک کے کوڑاکرکٹ کو بنا تلف کئے پھینک دیا جاتا ہے یا بعض اوقات ہزاروں کلومیٹر دور ایسے مقامات پر بھیج دیا جاتا ہے جہاں اسے جلایا جاتا ہے یا کھلی فضا میں پھینک دیا جاتا ہے۔ پلاسٹک ہزاروں سال تک ماحول میں رہ سکتا ہے‘ چھوٹے ٹکڑوں میں ٹوٹ سکتا ہے‘ جنہیں مٹی سے الگ کرنا‘ ناممکن ہوتا ہے اور سمندری و زمین پر مبنی ماحولیاتی توازن کو خوفناک طریقے سے متاثر کر سکتا ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی رہائش گاہوں اور قدرتی عوامل کو تبدیل کرتی ہیں اور اِس سے ماحولیاتی نظام کے ازخود تبدیلی یا موسمی حالات کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے‘ جس سے لاکھوں لوگوں کا معاش‘ خوراک کی پیداوار جیسی صلاحیتوں اور معاشرتی بہبود پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ سمندروں میں پلاسٹک پھینکنے سے اِن سمندروں کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے جس کے باعث ’آب و ہوا کی تبدیلی میں تیزی آتی ہے‘ یہ بات تشویشناک ہے کہ دنیا میں ہر ایک منٹ کے اندر ایک ٹرک پلاسٹک کا سازوسامان سمندر میں پھینکا جا رہا ہے! جنوبی ایشیا میں کچرے کے علاج کا ایک عام طریقہ پلاسٹک کو آگ لگا کر ٹھکانے لگانا ہے لیکن اِس عمل میں ماحول دشمن گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ کچرا جلانا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اِس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور یہ آلودگی بعدازاں آب و ہوا کی تبدیلی میں کردار ادا کرتی ہے۔ برف اور برف پر کالے کاربن کے جمع ہونے کی وجہ سے قطبی علاقوں میں برف پگھلنے میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں انسانی صحت کے متعدد مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بلیک کاربن کی گلوبل وارمنگ پیدا کرنے کی صلاحیت کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں پانچ ہزار گنا زیادہ ہے۔پاکستان میں ڈھائی سو ملین ٹن کچرا بنیادی طور پر پلاسٹک بیگز یا پلاسٹک کی بوتلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان کے ساحلوں پر پینسٹھ فیصد فضلہ پانی کی بوتلیں‘ بوتلوں کے ڈھکن‘ پلاسٹک بیگز اور پیکیجنگ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کی فوری ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت نے اسلام آباد میں ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کے استعمال پر ممانعت سے متعلق قواعد (ریگولیشنز) کی منظوری دی ہے جو اپنی جگہ اہم اقدام ہے۔ مذکورہ ریگولیشنز ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لئے جامع فریم ورک اور ٹائم لائن دیتے ہیں اس کے علاو¿ہ وفاقی حکومت‘ خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کی وزارت ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کے استعمال کوکم کرنے اور بالآخر اِس پر پابندی عائد کرنا چاہتی ہے اگرچہ ’پلاسٹک کی صورت وبائی مرض‘ کا علاج کسی ایک آئینی و سماجی عمل (ویکسین) سے ممکن نہیں ہے لیکن پلاسٹک کا متبادل شیشہ اور دھات موجود ہیں جن کے لائف سائیکل مضر ماحول اثرات بھی کم ہیں جبکہ وسائل نکالنے‘ پیداوار کے اخراج و استعمال‘ ڈسپوزل اور مجموعی ماحولیاتی اثرات جیسے عوامل بھی اہم ہیں۔ پلاسٹک کے استعمال کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ پلاسٹک کی خامیاں ہیں لیکن اِس کے متبادل بھی یکساں ماحول دشمن ہیں لہٰذا دنیا کے محفوظ مستقبل اور پائیدار (ماحول دوست) اہداف کے حصول کے لئے فیصلہ سازی سے عمل تک کے مراحل میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔دنیا میں ہر سال 200 ملین ٹن سے زیادہ پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ (فضلہ) پیدا ہو رہا ہے۔ پلاسٹک کا استعمال ترک کر کے عالمی درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کم کرنے کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ پلاسٹک کی کھپت کم کرنا‘ اِس کی ری سائیکلنگ اور فضلے کو تلف کرنے کے نظام کو بہتر بنانا‘ متبادل مواد کے استعمال کے فروغ اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر انحصار پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ دنیا کو پائیدار مستقبل کی ضرورت ہے اور پائیدار مستقبل میں دانشمندی سے سرمایہ کاری کرتے ہوئے پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرتے ہوئے اِسے ترک کرنے ہی میں سمجھداری ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مریم سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)