رواں ماہ پاکستان نے برآمدی ادائیگیوں کے لئے امریکی ڈالر پر دیرینہ انحصار ختم کیا اور روس سے ایک لاکھ ٹن خام تیل کی سرکاری سطح پر خریداری کے لئے چینی کرنسی ’یوآن‘ کا استعمال کیا۔ یہ یوآن (چینی کرنسی) میں پاکستان کی جانب سے پہلی بین الاقوامی لین دین (ڈیل) ہے۔ اسی طرح ارجنٹائن کے وزیر خارجہ برائے تجارت متیاس ٹومبولینی نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ ان کے ملک نے چین کے ساتھ 2.721 ارب ڈالر کے لین دین کا سمجھوتا کیا ہے جس میں چین کی کرنسی یوآن کو لین دین کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ارجنٹائن کی درآمدات کا اُنیس فیصد اپریل اور مئی کے مہینوں میں ’یوآن‘ ہی میں طے کیا گیا اور ٹامبولنی کا دعوی ہے کہ اس تبدیلی سے ان کے زرمبادلہ کے ذخائر مضبوط ہوں گے اور معاشی منظر نامے پر ان کا کنٹرول بڑھ جائے گا۔ نتیجتاً چھبیس اپریل کو‘ ارجنٹائن کی حکومت نے چین سے درآمد شدہ اشیا میں تجارت کو طے کرنے کے لئے یوآن کو اپنانے کا اعلان کیا جو ڈالر کی بالادستی کے لئے دھچکا ہے۔ بین الاقوامی تجارت میں متوازی کرنسیوں کے ابھرنے نے ’ڈی ڈالرائزیشن‘ کے حوالے سے جاری بحث کو ہوا دی ہے۔ مذکورہ دو مثالیں متبادل کرنسیوں کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان اور امریکی ڈالر کی بالادستی کی حیثیت کے ممکنہ خاتمے کی دردناک یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہیں۔ جیسا کہ پاکستان اور ارجنٹائن جیسے ممالک بڑے لین دین میں نان ڈالر ادائیگی کے نظام کو اپنا رہے ہیں تو اِس سے امریکی کرنسی پر انحصار مزید کم اور واضح ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی منظر نامہ ایک باریک لیکن اہم تبدیلی سے گزر رہا ہے‘ جو امریکی ڈالر کی بالادستی کو چیلنج کرتا ہے۔ حال ہی میں‘ ایک اہم پیش رفت میں‘ چین اور برازیل نے اپنی مقامی کرنسیوں‘ چینی یوآن اور برازیل کی رئیلز کا استعمال کرتے ہوئے تجارت کرنے کے لئے اہم معاہدے کئے۔ یہ اقدام دونوں اقتصادی طاقتوں کے درمیان تجارتی روابط میں نئی تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے‘ جس میں چین برازیل کے بڑے تجارتی شراکت دار کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ سال دوہزاربائیس میں دوطرفہ تجارت ڈیڑھ سو ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ اس کے علاوہ چین کی کرنسی نے برازیل کی دوسری سب سے بڑی بین الاقوامی ریزرو کرنسی کے طور پر نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ یہ تبدیلی عالمی سطح پر رینمنبی اور یوآن کے بڑھتے ہوئے کردار میں اضافہ کرتی ہے۔ چین کی جانب سے ’جی سی سی‘ ممالک سے خام تیل اور مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمدات برقرار رکھنے کے حالیہ فیصلے نے یوآن کو مزید تقویت دی ہے۔ اٹھائیس مارچ کو متحدہ عرب امارات سے حاصل کردہ ایل این جی کے لئے یوآن کا استعمال کیا گیا۔ ڈالر پر انحصار کم کرنے کے لئے متبادل کرنسیوں کی تلاش کا یہ رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ برکس اور آسیان جیسی بین الاقوامی اور علاقائی تنظیمیں اس طرح کے اقدامات پر سرگرمی سے غور کر رہی ہیں۔ برکس کرنسیوں کی رفتار پہلے ہی بہت تیز ہے اور بہت سے ممالک کو کلب میں شامل ہونے کے لئے راغب کر رہی ہے۔ مزید برآں‘ برازیل اور ارجنٹائن نے علاقائی تجارت اور مالی روابط کو فروغ دینے کے لئے ایک مشترکہ کرنسی کے قیام کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ پیش رفت دو متوازی مظاہر کو اجاگر کرتی ہے۔ امریکی ڈالر کی بالادستی میں کمی اور متوازی کرنسیوں‘ خاص طور پر چین کے یوآن کا ابھرنا۔ بریٹن ووڈز سسٹم کا خاتمہ اور 1999ءمیں یورپی یونین کی جانب سے یورو متعارف کرائے جانے کے بعد سے عالمی معیشت پر ڈالر کا غلبہ موضوع بحث رہا ہے۔ سال دوہزار آٹھ نو کے مالیاتی بحران اور اس کے نتیجے میں ڈالر کی پائیداری کے بارے میں پائے جانے والے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ خدشات ’ڈی ڈالرائزیشن‘ کی طرف رجحان سے ظاہر ہوئے ہیں‘جس میں حالیہ برسوں میں تیزی آئی ہے۔ اگرچہ عالمی ذخائر میں یورو کا حصہ معمولی ہے‘ جو اٹھارہ سے بیس فیصد ہے اور اِس کے مقابلے رینمنبی (آر ایم بی و یوآن) نے زیادہ تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے۔ گزشتہ سال روس پر دباو¿ ڈالنے کی کوشش میں امریکہ نے متعدد اقدامات کئے جن میں روس کے تین سو ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کرنا اور بڑی روسی بینکوں کو بین الاقوامی انٹربینک میسجنگ سروس سوئفٹ سے بے دخل کرنے جیسے اقدامات شامل تھے۔ اس کے جواب میں‘ روس نے متوازی مالیاتی نظام قائم کرنے کی کوشش کی ہے جو امریکی ڈالر کے عالمی غلبے کے لئے زبردست چیلنج ہے۔یوکرین اور روس کے درمیان ایک سال تک جاری رہنے والے تنازعے کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر معاشیات‘ جغرافیائی سیاست اور ثقافت کے شعبوں میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ حالیہ برسوں میں ڈالر کی قدر میں اضافے نے کئی ممالک کو بڑے پیمانے پر معاشی مسائل سے دوچار کیا ہے۔ سب سے اہم اثرات میں سے ایک ڈالر پر مبنی قرضوں والے ممالک پر اس کا بوجھ ہے کیونکہ مضبوط ہوتی کرنسی قرضوں کی ادائیگی کو زیادہ مہنگا بنا رہی ہے۔ ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاو¿ نے دنیا بھر میں مالیاتی مساوات کو درہم برہم کر دیا ہے۔ بڑھتے ہوئی ڈالر کی قیمت نے ایندھن اور خوراک جیسی درآمدی اشیائے ضروریہ پر انحصار کرنے والے ممالک پر بھی بوجھ ڈالا ہے۔ ڈالر کی بالادستی کے نتائج بڑھتے ہوئے معاشی بوجھ سے نبردآزما ممالک کے لئے خدشات پیدا کر رہے ہیں جو اپنی جگہ لائق توجہ ہیں۔ چین کے عالمی اقتصادی اثر و رسوخ میں اضافہ امریکی ڈالر کی عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت کے لئے بڑا چیلنج ہے‘ خاص طور پر مشرق وسطی کی مارکیٹوں میں اس کے پھیلنے کے ساتھ ‘جس میں سعودی عرب کی تیل مارکیٹ بھی شامل ہے۔ یہ منصوبہ یوآن کو بڑے پیمانے پر اپنانے کے حق میں توازن تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جسے مغربی میڈیا نے ’یوآنائزیشن‘ کے نام سے متعارف کیا ہے۔اگرچہ اِس بات کی پیش گوئی بہت مشکل ہے کہ یوآن کب اِس قدر مضبوط ہوگا کہ یہ امریکی ڈالر کا مقابلہ کرے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ ’ڈی ڈالرائزیشن‘ کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور امریکی توقعات سے کہیں زیادہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام