ڈیفالٹ؟

خود مختار دیوالیہ (ڈیفالٹ) کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی ملک اپنے ذمے واجب الادأ قرضوں کی ادائیگی میں ناکام رہے کسی ملک کی معاشی مشکلات کی چھ علامات ہوتی ہیں جو اُس کے ممکنہ خودمختار ڈیفالٹ کی نشاندہی کرتی ہیں‘ مسلسل اور بڑا مالی خسارہ: اگر حکومت کے اخراجات اِس کی آمدنی سے زیادہ ہو جائیں اور یہ اضافی اخراجات مسلسل برقرار رہیں تو اِن کی وجہ سے قومی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوتا ہے اور جب قرض بڑھتے ہیں اور آمدنی کم رہتی ہے تو قرضوں کی واپسی ممکن نہیں رہتی اور ایک قرض ادا کرنے کے لئے دوسرا قرض لینا پڑتا ہے‘ رواں سال (دوہزاربائیس تیئس) کے بجٹ میں چھ ارب روپے کا خسارہ گزشتہ پانچ سال کے دوران پہلے سے موجود نوسو ہزار ارب روپے کے خسارے میں اضافہ کر رہا ہے‘اس غیر ذمہ دارانہ رویئے نے قومی قرضوں کی سطح غیر معمولی طور پر بلند کر دی ہے‘ دوسری اہم بات سیاسی عدم استحکام ہوتا ہے۔ پاکستان میں طرز حکمرانی اور طرز سیاست سے جڑے مسائل اپنی جگہ اصلاح طلب ہیں اور اِن مسائل کے تسلسل کے دور رس مضمرات ہیں کیونکہ اِن عوامل کی وجہ سے غیر یقینی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو حکومت کی مؤثر معاشی پالیسیوں کے نفاذ اور قرضوں کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ گورننس کے چیلنجوں سے نبرد آزما حکومت اپنے قرضوں کی ذمہ داریوں کو مؤثر طریقے سے کیسے سنبھال سکتی ہے؟ اس کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ‘ سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی اور بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں تک محدود رسائی کا ’شیطانی چکر‘ جاری رہتا ہے‘ تیسری اہم بات زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے۔ یہ ایک دل دہلا دینے والے موڑ میں‘ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر‘ جو چند ماہ قبل بیس ارب ڈالر تھے کم ہو صرف چار ارب ڈالر رہ گئے ہیں‘جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر لائف لائن کے طور پر کام کرتے ہیں‘ جو کسی ملک کو اپنی ضروریات کے مطابق اشیاء و اجناس درآمد کرنے اور اپنے بین الاقوامی قرضوں کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے قابل بناتے ہیں لیکن اگر یہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوں تو اس قدر خطرناک کمی کی وجہ سے اسٹیٹ بینک اہم (ضروری) ادائیگیوں کے قابل نہیں رہتا۔ چوتھی اہم بات کرنسی کی قدر میں کمی ہوتی ہے۔ صرف ایک سال پہلے‘ 200 روپے میں ایک ڈالر خریدا جا سکتا تھا۔ اب ایک ڈالر خریدنے کے لئے 300 روپے لگتے ہیں۔ کرنسی کی قدر میں پچاس دنوں کے اندر 365 فیصد کی گراوٹ خطرے کی علامت ہے‘ کسی ملک کی کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی یا مسلسل گراوٹ غیر ملکی کرنسی پر مبنی قرضوں 
 کی ادائیگی کو مزید مشکل بنا دیتی ہے‘ جس سے ممکنہ طور پر ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پانچویں اہم بات افراط زر کی بلند شرح ہوتی ہے۔ مسلسل بلند افراط زر (مہنگائی) روپے کی قدر کو مسلسل کم کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے معاشی استحکام بھی متاثر ہے اور حکومت کے لئے بیرونی قرضوں کی ذمہ داریاں پورا کرنا بہت زیادہ مشکل ہو چکا ہے۔ چھٹی اہم بات شدید لیکویڈیٹی بحران ہے۔ جس کی وجہ سے قلیل مدتی ادائیگیوں جیسی ذمہ داریاں پوری کرنا مشکل ہو رہا ہے‘پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے خالص ذخائر ساڑھے تین ارب ڈالر سے کم ہیں‘ جبکہ رواں ماہ 900 ملین ڈالر کی ادائیگی متوقع ہے۔ مزید برآں‘ جولائی سے دسمبر تک دس ارب ڈالر ادا کرنے ہیں‘ جس میں سے پانچ ارب ڈالر ’رول اوور‘ کے تابع نہیں ہیں۔ جب تک ہنگامی اِمداد فراہم نہیں کی جاتی‘ تو موجودہ کیلنڈر سال کے اختتام سے پہلے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے خالص ذخائر نہ ہونے کے برابر ہو ں گے۔ یہ اعداد و شمار ایک افسوسناک تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اس وقت چین سب سے بڑے دو طرفہ قرض دار کے طور پر ابھر رہا ہے اور کثیر الجہتی قرض دہندگان اور چین کے مابین تنازعات کو جنم دے رہا ہے۔ اس افراتفری کے درمیان‘ زیمبیا کے لوگ طویل عرصے تک قرضوں کی تنظیم نو کا ناقابل برداشت بوجھ برداشت کر رہے ہیں اور خاموشی و مایوسی میں مبتلا ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)