پوری دنیا کے ممالک اپنے اختیارات پر غور کر رہے ہیں کہ ایک کثیر قطبی دنیا کا جواب کیسے دیا جائے جو یک قطبی دنیا کی راکھ سے تیزی سے اٹھ رہی ہے۔ واشنگٹن اور نئی دہلی عالمی شمال کی نمائندگی کرتے ہیں ،بھارت، جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا عالمی جنوب کا حصہ ہیں، اگرچہ ان کے نظریاتی جھکا ﺅکی وجہ سے انہیں عالمی شمال میں سمجھا جانا چاہئے لیکن یہ دراصل عالمی جنوب کا اجتماعی ردعمل ہے۔ ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے 78 ممالک جو بنیادی طور پر اس بات کا تعین کریں گے کہ مستقبل کی کثیر قطبی دنیا کیسے کام کرے گی۔امریکہ دنیا کا بالادست ہو سکتا ہے لیکن یہ چین ہی ہے جو نہ صرف ایشیا کا بالادست ہے بلکہ اس بڑے کھیل کا سب سے مضبوط اداکار بھی ہے جو اس بات کا تعین کرنے کیلئے کھیلا جا رہا ہے کہ تیزی سے اُبھرتی ہوئی کثیر قطبی دنیا میں کون عالمی جنوب میں زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ پیدا کرے گا۔ اس مقصد تک پہنچنے کے لئے چین پہلے ہی ان خطوں میں انسانی اور سماجی سرمائے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ صدر شی جن پنگ ہمیشہ چین کو ترقی پذیر دنیا یعنی عالمی جنوب کا حصہ کہتے ہیں۔ اور جب تک چین اس دنیا کا حصہ رہے گا وہ اپنے کامیاب ترقی پذیر ماڈل کو ان خطوں کے ممالک کے ساتھ بانٹتا رہے گا اور اس طرح اپنا اثر و رسوخ پھیلاتا اور بڑھاتا رہے گا۔ یہ بڑی حد تک غیر جمہوری اور ترقی پذیر دنیا کی قیادت کرنے کی ایسی چینی حکمت عملی کے خلاف تھا کہ صدر جو بائیڈن نے 2021 میں B3W (Build Back Better World) کے G-7 اجلاس کے دوران اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ہو سکتا ہے کہ عالمی شمال کی چین کو گھیرنے کی اپنی بڑی حکمت عملی ہو لیکن چین کے جوابی گھیرا ﺅکے تصور کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح چین سامراجی شمال کے خلاف اپنی عالمی جنوبی حکمت عملی کو استعمال کر رہا ہے۔ چیئرمین ما ﺅکے انقلاب کے دوران چینی کمیونسٹ پارٹی نے دیہی علاقوں سے چینی شہروں کو گھیرنے کی حکمت عملی استعمال کی۔ اب اسی انداز میں چین ترقی پذیر ممالک کا ایک متحدہ محاذ بنا رہا ہے تاکہ عالمی شمال کی تسلط پسند طاقتوں کو گھیرے میں لے کر الگ تھلگ کیا جا سکے۔ چین اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے جن سٹریٹجک ٹولز کا استعمال کر رہا ہے، وہ عالمی جنوب کے ممالک کو مسلسل پھیلتی ہوئی اقتصادی امداد، سرمایہ کاری اور دیگر مختلف مراعات فراہم کر رہا ہے۔ واشنگٹن عالمی شمال کے ممالک کے ساتھ اتحاد اور شراکت داری کے نظام کے ذریعے اپنی قومی طاقت بنا سکتا ہے لیکن یہ ترقی پذیر ممالک کا ایک متحدہ محاذ بنا کر چین کی اپنی قومی طاقت کی تعمیر اور اضافہ کا مقابلہ کر سکتا ہے جو سب سے اہم مسئلہ بن جائے گا۔ آنے والے سالوں اور دہائیوں میں یہ حکمت عملی کیسے سامنے آ رہی ہے؟افریقہ کی مثال لے لیں۔ 2003 میں چینی یونیورسٹیوں میں صرف 2,000 افریقی طلبا زیر تعلیم تھے لیکن آج یہ تعداد بڑھ کر 100,000 سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ افریقہ میں شہری متوسط طبقے کے اگلے 15 سالوں میں 800 ملین افراد تک بڑھنے کی توقع ہے، افریقی آبادی کے بنیادی حصے میں چینی سرمایہ کاری ایک منصوبہ بند حکمت عملی معلوم ہوتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر افریقی طلبا جو چینی زبان بولتے ہیں اور چینی طرز زندگی کو دیکھ اور تجربہ کر چکے ہیں اپنے متعلقہ ممالک کی خدمت کے لئے افریقی براعظم واپس جائیں گے اور غالباً چینی ثقافت اور اس کے طرز حکمرانی کو فروغ دینے کے اہم سفیر بن جائیں گے۔ ہم یہاں 55 ممالک کے براعظم کی بات کر رہے ہیں جن کی مجموعی آبادی 1.3 بلین ہے۔ اس کے علاوہ، افریقہ کی مشترکہ جی ڈی پی $1.3 ٹریلین ہے اور اگر پورا افریقہ ایک ملک ہوتا، تو یہ آج دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہوتی‘ افریقیوں کے پاس تاریخ کو دوبارہ لکھنے کا موقع ہے‘ اب تک چین ان وسائل کے کنٹرول کے مقابلے میں سرفہرست ہے۔ لیکن امریکیوں کا کیا ہوگا؟عالمی جنوب کے دو دیگر خطوں میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ بھی قابل ذکر ہے۔ آسیان کے 10 رکن ممالک میں تقریبا ً680 ملین افراد رہائش پذیر ہیں۔ سال 2000 میں ان کے ساتھ چین کی تجارت محض 29 بلین ڈالر تھی۔ آج یہ بڑھ کر 669 بلین ڈالر ہو گئی ہے۔ اسی طرح 2002 سے 2019 کے درمیان چین کی لاطینی امریکہ اور کیریبین کے ساتھ تجارت 18 بلین ڈالر سے بڑھ کر 315 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ عالمی جنوب کی ترقی پذیر دنیا کے ساتھ چین کی وابستگی اس آہنی پردے کو اٹھانے میں کردار ادا کر رہی ہے جسے استحصالی عالمی شمال نے اس خطے پر اتار دیا تھا جس کے ساتھ اس نے غیر منصفانہ سلوک کیا، استحصال کیا اور ایک تلخ ماضی کے ساتھ چھوڑ دیا۔ چین اس سب کو تبدیل کرنے اور سب کے باہمی فائدے کے لئے اسے تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔( بشکریہ ٹریبیون،تحریر:ڈاکٹر محمد علی احسان، ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام