حکومت ِپاکستان نے ’معاشی بحالی کے منصوبے‘ کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد ’معیشت کے اہم شعبوں میں غیر استعمال شدہ وسائل بروئے کار لاتے ہوئے دوست ممالک کو سرمایہ کاری کے لئے راغب کرنا ہے۔ اس اہم کام کو انجام دینے کے لئے ’اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل‘ نامی ادارہ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔ سنگین معاشی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کسی بھی ایسے اقدام کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن یکساں اہم یہ بھی ہے کہ حکومت کی خواہش مندانہ سوچ سے آگے بڑھ کر عملی طور پر سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔ کوئی ایسی پالیسی جو ملک کے معاشی بحران اور عوامی مالیات کی بگڑتی ہوئی حالت کو پس پشت ڈالے‘ حقیقت سے منہ موڑنے کے مترادف ہوگا‘ پاکستان کے معاشی بحران کی جڑیں دائمی مالیاتی خسارے سے جڑی ہیں جو اس کے ادائیگیوں کے توازن کے مستقل مسائل‘ بلند افراط زر اور معاشی عدم استحکام کا ذمہ دار ہے۔ اس کے لئے ادارہ جاتی انتظامی مسائل حل کرنے اور پائیدار ترقی کے لئے جامع منصوبے کی ضرورت ہے جو زیادہ بجٹ یا ادائیگیوں کے توازن کے خسارے‘ بڑھتے ہوئے قرضوں اور غیر ملکی زرمبادلہ کے بحران کو ختم کرسکے۔ ان مسائل کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے بیل آو¿ٹ کو مسئلے کے حل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جب تک ساختی مسائل حل نہیں ہوتے تب تک ملک میں شرحِ نمو کمزور‘ بچت اور سرمایہ کاری کم اور مالیاتی خسارہ زیادہ رہے گا ساتھ ہی بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے جال سے ہمارا ملک آزاد نہیں ہوسکے گا۔ صرف معاشی و سیاسی استحکام کے ماحول میں ہی ملک میں سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ماحول اعتماد کی فضا قائم کرتا ہے۔ غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاری کے امکانات کو کمزور کرتی ہے اور یوں سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک لبرل کاروباری ریگولیٹری فریم ورک اور حکومتوں کی طرف سے پالیسی کے تسلسل کے وعدے ہی سرمایہ کاری کے لئے مثبت ماحول کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اگر کھیل کے ضابطوں کو بار بار تبدیل کیا جاتا ہے تو کوئی بھی طویل مدتی سرمایہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ مزید یہ کہ سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے سرمایہ کاروں کو یکساں مواقع دینا ضروری ہے۔ حالیہ پالیسی میں اس حوالے سے کچھ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری کے لئے سہولت کاری میں ہمیں ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑا۔ پاکستان کے پائیدار معاشی بحالی کے امکانات کا تعین سیاسی اور اقتصادی عوامل کریں گے۔ درحقیقت اس حوالے سے سب سے اہم شرط معاشی نہیں ہے۔ یہ شرط قومی قیادت کا امتحان ہے کہ ایسی اصلاحات جو قلیل مدت میں تو بہت سخت لیکن طویل مدت میں پائیدار اور منافع بخش ہوں کس طرح رائج کی جائیں گی۔ پاکستان شدید معاشی بحران کا سامنا کرنے والا واحد ملک نہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک جیسا کہ جنوب مشرقی ایشیا‘ لاطینی امریکہ کے ممالک اور ہمارے ہمسایہ ممالک کو اِسی طرح کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ان بحرانوں سے پہلے سے زیادہ مضبوط بن کر نکلے۔ ان ممالک نے بحرانوں کو ترقی کے مواقعوں میں تبدیل کیا۔ سخت قسم کی ادارہ جاتی اصلاحات کی گئیں اور مالیاتی پالیسی و دیگر اصلاحاتی اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ یہ سب اُن حکومتوں نے کیا جو اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو طویل مدتی عزم اور مستقل پالیسی پر عمل درآمد ضروری ہے۔ اس حوالے سے قومی قیادت کا کردار اہم ہوتا ہے تاہم پیشہ ورانہ افراد کی قابل اور باشعور ٹیم بھی یکساں اہم ہوتی ہے جو بحرانوں سے نمٹنے اور ملک کی پائیدار اقتصادی بحالی اور ترقی کی طرف منتقلی کو یقینی بنانے کے لئے اصلاحات کی تشکیل اور نفاذ میں حکومت کی مدد کرسکتی ہو۔ عام طور پر اس بات پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ معاشی میدان میں کامیابی حاصل کرنے والے ممالک میں اصلاحات کے عمل کی تشکیل اور نگرانی کرنے والے پیشہ ورانہ افراد کا معیار انتہائی اہم تھا۔عالمی بینک کے تعاون سے ہونے والی تحقیق بنام ’گروتھ رپورٹ‘ نے دنیا بھر کے ممالک کے تجربات کا جائزہ لیا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ معاشی طور پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے کیا اقدامات کئے۔ رپورٹ کو ورلڈ بینک کے قائم کردہ کمیشن آن گروتھ اینڈ ڈویلپمنٹ نے مرتب کیا۔ اس رپورٹ کی تیاری میں معراف افراد شامل تھے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق عالمی جنوب (گلوبل ساو¿تھ) سے تھا۔ مذکورہ رپورٹ سال دوہزارآٹھ میں شائع ہوئی تھی لیکن کے باوجود اس کے نتائج آج بھی درست ہیں۔ سب سے زیادہ سبق آموز اُن خصوصیات کی شناخت ہے جو اُن تمام ممالک میں یکساں پائے گئے جنہوں نے ترقیاتی حکمت عملیوں کو عملی جامہ پہنایا اور میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنایا‘ بچت اور سرمایہ کاری کی بلند شرحیں برقرار رکھیں‘ منڈیوں کو وسائل مختص کرنے کی اجازت دی اور عالمی معیشت کا مکمل فائدہ اٹھایا۔ پاکستان میں بلاشک و شبہ فوری طور پر مالیاتی بحران اور اس سے پائیدار بنیادوں پر نمٹنے کے لئے جامع اقدامات کی ضرورت ہے لیکن مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے اُن مسائل سے نمٹنا بھی ضروری ہے جو معاشی ترقی اور ملک کے مستقبل کے لئے فائدہ مند ہوں۔جن ممالک نے مشکلات اور مسائل کے باوجود ترقی کی ہے یقینا ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ کس طرح انہوں نے معاشی ترقی کے اہداف کا حصول ممکن بنایا ۔
(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ملیحہ لودھی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)