خوشحالی کا راستہ: بجٹ کی ترجیحات

پاکستان میں مالی سال 2023-2024 کے لیے حال ہی میں اعلان کردہ بجٹ نے ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کے درمیان بحث چھیڑ دی ہے۔ PIDE میں MacroPolicy Lab نے چند روز قبل بجٹ اور اس کے ملک اور اس کے عوام پر اثرات کا تجزیہ کرنے کے لئے ٹوئٹر پر سپیس ڈسکشن کا اہتمام کیا۔بحث کا مقصد ایک صحت مند گفتگو کی حوصلہ افزائی کرنا، اہم مسائل کی نشاندہی کرنا اور بجٹ سازی کے عمل کو بڑھانے کے لیے ممکنہ حل تجویز کرنا تھا۔ پاکستان کو اس وقت کئی اقتصادی رکاوٹوں اور چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں کم شرح نمو، بلند افراط زر، غیر ملکی ذخائر کا خسارہ اور جمود کا شکار برآمدات شامل ہیں۔ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فعال اقدامات اور اختراعی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ شرکا نے ان رکاوٹوں کو تسلیم کیا اور ان کو موثر طریقے سے حل کرنے کے لیے سٹریٹجک اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔بجٹ کا ایک قابل تعریف پہلو سماجی تحفظ کے پروگراموں اور نوجوانوں اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کے لیے مراعات کے لیے حکومت کی جانب سے اہم فنڈز مختص کرنا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد مہنگائی کے دبا ﺅکو کم کرنا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ تاہم، انحصار کو کم کرنے اور مجموعی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے پائیدار روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔خاص طور پر پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) میں اخراجات اور لاگت کی تاثیر میں کارکردگی بہت اہم ہے۔ بحث کے دوران وسائل کی تقسیم کو بہتر بنانے اور زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کرنے کے لیے اخراجات کو معقول بنانے اور سبسڈی کی تنظیم نو کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔ شرکاءنے ایک موثر اخراجات اور ان منصوبوں کے پورٹ فولیو کی اہمیت پر زور دیا جو پیسے کے لئے اپنی قدر کھو دیتے ہیں۔پاکستان میں ٹیکس کے نظام کو ریونیو کی پیداوار اور سازگار کاروباری ماحول فراہم کرنے کے درمیان توازن قائم کرنے کےلئے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ٹیکس کے عمل کو آسان بنانا، شفافیت میں اضافہ، صوبائی اور وفاقی ٹیکس ڈھانچے کو ہم آہنگ کرنا، تعمیل کے طریقہ کار کو مضبوط بنانا، اور دستاویزات سے متعلق خدشات اور کاروبار پر ٹیکس کے زیادہ بوجھ کو دور کرنا اہم اقدامات ہیں۔ یہ اصلاحات سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہیں، اقتصادی ترقی کو فروغ دے سکتی ہیں اور ٹیکس چوری کی حوصلہ شکنی کر سکتی ہیں۔بجٹ سازی کے عمل میں عوام کی ضروریات اور خواہشات کو ترجیح دینی چاہئے۔ مربوط کوششوں کو فروغ دے کر، سٹیک ہولڈرز کو شامل کر کے، اور عوام پر مبنی نقطہ نظر اپنا کر، مختلف وزارتوں کے خدشات اور مفادات کو دور کیا جا سکتا ہے، جس سے مزید جامع اقتصادی ترقی ہو سکتی ہے۔ شرکا ءنے وزارتوں کے درمیان بہتر ہم آہنگی، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہتر بنانے اور آبادی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔بحث میں سبسڈی مختص کرنے کےلئے ایک فریم ورک کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی گئی۔بجٹ سازی کے عمل کو بڑھانے اور جامع اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لئے، بحث سے کئی سفارشات سامنے آئیں۔ ان سفارشات میں بجٹ مختص کرنے میں کارکردگی کو بڑھانا، سرمایہ کاری کے فروغ اور برآمدی تنوع کے ذریعے معاشی نمو کو مضبوط بنانا، سبسڈی کے انتظام کو ہموار کرنا، ٹیکس کے نظام کو آسان بنانا، بجٹ سازی کے لیے عوام پر مبنی نقطہ نظر اپنانا، قرضوں کو کم کرنا اور اثاثوں کا موثر طریقے سے انتظام کرنا، بجٹ کی شفافیت اور احتساب کو بہتر بنانا، بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا، شواہد پر مبنی پالیسی سازی کو فروغ دینا، اور عوامی شرکت اور بیداری کو بڑھانا۔بجٹ کے بعد کے تجزیے نے بجٹ کی خوبیوں اور کمزوریوں کے بارے میں قیمتیآراءکا اظہار کیا۔ اس نے مالیاتی ماڈل کا از سر نو جائزہ لینے، اخراجات اور سبسڈیز کو معقول بنانے، ٹیکس کے نظام کو آسان بنانے اور بجٹ سازی کے لئے عوام پر مبنی نقطہ نظر کو اپنانے کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔بحث کے دوران تجویز کردہ سفارشات پر عمل درآمد ایک شفاف، موثر اور جوابدہ بجٹ کے عمل کا باعث بن سکتا ہے جو پاکستان کے عوام کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرتا ہے۔ پالیسی سازوں اور سٹیک ہولڈرز کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ان سفارشات کو نوٹ کریں اور بجٹ میں چیلنجوں اور مواقع سے نمٹنے کے لئے مل کر کام کریں اور پائیدار اقتصادی ترقی اور ترقی کو یقینی بنائیں‘پائیدار ترقی اور طویل مدتی اہداف پر توجہ مرکوز کرکے ہم پاکستان کے مستحکم اور خوشحال مستقبل کی مضبوط بنیاد رکھ سکتے ہیں۔(بشکریہ:دی نیوز: تحریر ناصر اقبال ترجمہ: ابوالحسن امام)