پاک امریکہ شراکت داری

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا گزشتہ ماہ واشنگٹن کا دورہ بھارت و امریکہ میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ’شراکت داری‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانا چاہتی ہے۔ بائیس جون کو جاری ہونے والے امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیہ میں دوطرفہ تعاون کے انتہائی اہم شعبوں کی نشاندہی کی گئی اور یہ اقدام دونوں فریقوں کے تعلقات مضبوط بنانے کے عزم کی تصدیق کرتا ہے۔ خاص طور پر اقتصادی‘ تجارتی‘ تکنیکی اور سیکورٹی سے متعلق شعبوں میں امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے پہلے سے نزدیک آ چکے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ مودی کے حالیہ دورے کے بحر ہند و بحرالکاہل کے خطے اور جنوبی ایشیا میں امن‘ استحکام اور اقتصادی ترقی پر دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مودی کے حالیہ دورہ¿ امریکہ کو اس کے تاریخی تناظر کے ساتھ عالمی اور علاقائی سطح پر بدلتے ہوئے جیو پولیٹیکل منظرنامے کے پس منظر میں دیکھنے (تجزیہ) کی ضرورت ہے۔ تاریخی طور پر بھارت اور امریکہ کے تعلقات دو اہم مراحل سے گزرے ہیں۔ سرد جنگ کے دوران‘ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میںسٹریٹجک گہرائی کا فقدان تھا کیونکہ بھارت نے امریکہ اور سوویت یونین کی شدید دشمنی کے تناظر میں بظاہر عدم وابستگی کی پالیسی پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم حقیقت میں بھارت کا روس کے حق میں جھکاو¿ رہا۔ روس بھارت کو ہتھیاروں کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیتے ہوئے مغربی بلاک کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کرداروں میں بتدریج تبدیلی دیکھنے میں آئی کیونکہ چین امریکہ دشمنی اور چین بھارت تعلقات میں اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ صدر کلنٹن کی قیادت میں امریکہ نے چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ قریبی سٹریٹجک تعلقات استوار کرنے کا عمل شروع کیا تاکہ بھارت کے ذریعے خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔ مارچ دوہزار میں کلنٹن کا بھارت کا دورہ اس سمت میں ایک اہم قدم تھا۔ صدر بش کے دور میں مارچ دوہزارپانچ میں واشنگٹن نے اس عمل کو مزید تقویت دی۔اس کے بعد جلد ہی بھارت امریکہ جوہری معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں بھارت کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان سول نیوکلیئر تعاون ہوا۔اس سلسلے میں بھارت کے جارحانہ روئیے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کے تلخ تعلقات کو یکسر نظر اندا زکیا گیا اور نہ ہی طاقت کے توازن کو اس سلسلے میں مد نظر رکھا گیا۔ اس کے بعد سے صدر اوباما‘ ٹرمپ و جوبائیڈن کی قیادت میں امریکی انتظامیہ نے بھارت اور امریکہ کے تعاون کے دائرہ کار اور گہرائی کو مسلسل بڑھایا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ واشنگٹن کے دوران طے پانے والے معاہدوں میں امریکی نقطہ¿ نظر سے چین کو روکنے کی پالیسی کا اہم عنصر ہے جس میں جاپان‘ جنوبی کوریا‘ فلپائن اور آسٹریلیا کے ساتھ اتحاد کو مضبوط بنانا اور ’کواڈ‘ اور یو کے یو کے ایس جیسے نئے سیکورٹی تعاون کے انتظامات بھی شامل ہیں۔ امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری کا مقصد چین کا راستہ روکنا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہندوتوا (یعنی ہندو انتہا پسندی) کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ‘ مذہبی اقلیتوں پر ظلم و ستم اور بھارت میں انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات‘ خاص طور پر اظہار رائے کی آزادی‘ امریکہ کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات اور تعاون قائم کرنے کی راہ پر آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہو ، تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے ، امریکہ اپنے خارجہ تعلقات کو کس طرح چلاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران‘ امریکہ نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ہٹلر کی قیادت میں نازی جرمنی کو شکست دینے کے لئے سٹالن کی شکل میں ’بے رحم ڈکٹیٹر‘ کی قیادت میں کمیونسٹ سوویت یونین کے ساتھ قریبی تعاون کیا جسے مغرب ’بڑے خطرے‘ کے طور پر دیکھتا تھا۔ 1971-72ءمیں‘ امریکہ نے سوویت طاقت کو روکنے کے لئے چین کے ساتھ سٹریٹجک تعاون کا آغاز کیا۔ حقیقت یہہے کہ امریکہ سلامتی کے اہم معاملات پر اپنے فیصلے محض اخلاقی اور نظریاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ وقتی مصلحتوں کے زیر اثر کرتا ہے۔ اگر حقیقت پسندانہ طور پر دیکھا جائے تو واشنگٹن بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو جاری رکھتے ہوئے لبرل جمہوری اقدار پر ہر گز توجہ نہیں دے نہ ہی وہاں پر اقلیتوں کی بدحالی کے معاملے کو بھارت کے ساتھ اٹھائے گا۔ جب تک کہ بھارت امریکی خواہش کے مطابق چین کی طاقت کا مقابلہ کرنے میں اپنے مقاصد کو پورا کرتا رہے گا۔بھارت اور امریکہ کا حالیہ مشترکہ بیان چین کو واضح اشارہ (پیغام) ہے کہ وہ کہ امریکہ کواڈ جیسی تنظیموں کے ذریعے چین کو مقابلہ کریگا۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی وجہ سے درپیش چیلنجوں کے پیش نظر پاکستان کے پالیسی سازوں کو درپیش پہلا اور اہم کام ملک کو سیاسی طور پر مستحکم کرنا اور قومی اقتصادی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کو سات فیصد یا اس سے زیادہ تک پہنچانا ہے۔ اس مقصد کے لئے ہمیں چین کے ساتھ اپنے سٹریٹجک تعاون کو بھی فروغ دینا ہوگا۔ اس کے ساتھ پاکستان کو امریکہ و دیگر مغربی ممالک کے ساتھ معمول کے دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں اور مغربی ایشیا‘ وسطی ایشیا اور خلیج فارس کے ممالک کے ساتھ روس کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی ’کثیر الجہتی تعاون‘ کو فروغ دینا چاہئے۔ (مضمون نگار سابق سفیر ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: جاوید حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)