ڈیجیٹل دنیا : خودمختاری‘ معاشی بہبود

ڈیجیٹل دنیا میں خودمختاری اور ڈیٹا تحفظ پسندی کے حوالے سے غوروخوض ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو اِن موضوعات پر تبادلہ خیال نہیں ہو رہا کیونکہ ملک میں ڈیٹا پروٹیکشن اور پرائیویسی قوانین نہیں حالانکہ ڈیٹا پروٹیکشن بل پر متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ متعدد مرتبہ بات چیت ہو چکی ہے جس کا خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت سے وسیع پیمانے پر استفادہ ہو رہا ہے اور اگر اِس حوالے سے خودمختاری و تحفظ پسندی پر غور کیا جائے تو اِس سے حاصل ہونے والی بصیرت یقینی طور پر ہمارے لئے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ’ڈیجیٹل معیشت‘ سے کس قدر فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں؟ ’خودمختاری‘ کسی بھی قوم یا ریاست کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے اور اِسی کے بل بوتے پر کسی بیرونی مداخلت کے بغیر حکمرانی کی جاتی ہے اور اپنے فیصلے خود کئے جاتے ہیں۔ دوسری اہم چیز ’پروٹیکشنازم‘ ہے جو معاشی پالیسی یا نقطہ نظر ہے اور اِس کا مقصد گھریلو صنعتوں‘ کاروباروں اور کارکنوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اُنہیں غیر ملکی مسابقت یا اثر و رسوخ سے بچانا ہوتا ہے۔ ذیلی خودمختاری بحیثیت مجموعی قومی خودمختاری اور فیصلہ سازی کے اختیار کو برقرار رکھتے ہوئے قومی سلامتی کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اُور اِس کے ذریعے گھریلو ضروریات اور اقدار کو پورا کرنے کے لئے تیار کردہ پالیسیوں کو اختیار کیا جاتا ہے۔ ثقافتی تحفظ کا فروغ اور خود ارادیت بھی اِسی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے تاہم یہ پالیسی تنہائی پسندی کا باعث بن سکتی ہے اُور اِس کی وجہ سے بین الاقوامی تعاون محدود ہو سکتا ہے جس سے عالمی باہمی ربط کے فوائد محدود ہو سکتے ہیں۔ تجارت اور علم کے تبادلے میں رکاوٹوں کے ذریعے ترقی کی راہ میں رکاوٹ حائل ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر عالمی گورننس کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تحفظ پسندی ملکی صنعتوں کو غیر ملکی مسابقت سے بچاتی ہے۔ اِس سے ملازمتوں اور اجرتوں کی حفاظت ہوتی ہے۔ گھریلو معاشی ترقی کو فروغ ملتا ہے اُور اسٹریٹجک صنعتوں کی حمایت سے خود کفالت کا فروغ ہوتا ہے جس سے حساس شعبوں میں قومی سلامتی کے مفادات کا تحفظ بھی ممکن ہو جاتا ہے گویا یہ کثیرالجہتی مفادات کا تحفظ کرتی ہے تاہم اِس کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں صارفین کو قیمتوں میں اضافہ‘ مصنوعات کے انتخاب اور معیار میں کمی‘ تجارتی شراکت داروں کی جانب سے جوابی کاروائی‘ جدت طرازی اور مسابقت میں رکاوٹ‘ معاشی کارکردگی میں کمی اور عالمی تعاون و باہمی انحصار کے مواقع کم ہوسکتے ہیں۔ڈیجیٹل خودمختاری سے مراد کسی ملک کا اپنا ڈیجیٹل انفراسٹرکچر‘ ڈیٹا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اصولاً ممالک کو اپنے ڈیجیٹل ڈومینز کے لئے قواعد و ضوابط بنانے اور ڈیجیٹل دائرے میں اپنے شہریوں کی رازداری‘ سلامتی اور معاشی مفادات کی حفاظت کرنے کا اختیار ہونا چاہئے۔ دوسری طرف‘ ڈیجیٹل تحفظ پسندی‘ گھریلو ڈیجیٹل صنعتوں کو غیر ملکی مسابقت سے بچانے کے لئے پالیسیوں اور طریقوں کا استعمال ہوتا ہے۔ اس میں ٹیرف‘ کوٹہ یا ڈیجیٹل آلات اور خدمات کی راہ میں حائل رکاوٹیں و اقدامات شامل ہوسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل خودمختاری اور تحفظ پسندی کا ’ذیلی ڈومین‘ ڈیٹا کی خودمختاری اور تحفظ پسندی ہے۔ ڈیٹا کی خودمختاری کا مقصد رازداری‘ سلامتی و قومی مفادات کے تحفظ کے لئے مخصوص دائرہ اختیار ہے۔ یہ کسی قوم کے حق پر زور دیتا ہے کہ اپنی حدود کے اندر ڈیٹا سے متعلق سرگرمیوں کو منظم رکھتا ہے تاہم تحفظ پسندی بنیادی طور پر گھریلو صنعتوں کو غیر ملکی مسابقت سے بچانے پر توجہ مرکوز کرتی ہے اور اکثر ان صنعتوں کی پرورش یا حفاظت عملاً ممکن بناتی ہے۔ڈیٹا کی خودمختاری سے متعلق قوانین کی کچھ مثالوں میں یورپی یونین کا جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (جی ڈی پی آر)‘ کیلیفورنیا کنزیومر پرائیویسی ایکٹ (سی سی پی اے)‘ چینی سائبر سیکورٹی قانون اور برازیل کا جنرل ڈیٹا پروٹیکشن قانون (ایل جی پی ڈی) شامل ہیں۔ جی ڈی پی آر کو دنیا میں ڈیٹا کے تحفظ کے سخت ترین نظاموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اس نے دنیا بھر میں ڈیٹا کے تحفظ کے قوانین کی ترقی کو متاثر کیا ہے۔ چند دیگر مثالیں بھی ہیں جیسا کہ برطانیہ کا سی سی پی اے‘ ایل جی پی ڈی‘ ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2018ء(ڈی پی اے 2018ئ) اور سنگاپور کا پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ (پی ڈی پی اے)۔ یہ بل ’جی ڈی پی آر‘ کے اصولوں‘ ڈیٹا سبجیکٹ رائٹس اور احتساب کی ضروریات کے لحاظ سے ترغیب حاصل کرتا ہے۔ تاہم اس میں کچھ منفرد عناصر بھی شامل ہیں جیسا کہ حساس ذاتی ڈیٹا کے کچھ زمروں کے لئے ڈیٹا لوکلائزیشن کی ضروریات۔ پاکستان کے مجوزہ پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کا مقصد ذاتی ڈیٹا کی پروسیسنگ کو ریگولیٹ کرنا اور افراد کے پرائیویسی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ توقع ہے کہ اس میں جی ڈی پی آر سے ملتے جلتے اصول اور تصورات شامل ہوں گے جن کے تحت بشمول ڈیٹا سبجیکٹ کے حقوق‘ شفافیت کی ذمہ داریاں اور سرحد پار ڈیٹا کی منتقلی کی دفعات ہوں گی۔ سرحدوں کے آر پار ڈیٹا کا آزادانہ بہاو¿ کاروباری اداروں کو نئی منڈیوں تک پہنچنے‘ اپنے کسٹمر بیس کو بڑھانے اور ترقی کے مواقع کی نشاندہی کے قابل بناتا ہے۔ بین الاقوامی ڈیٹا تک رسائی کمپنیوں کو صارفین کی ترجیحات کے تعین‘ ان کی مصنوعات اور خدمات کو تیار کرنے اور عالمی منڈیوں کی متنوع ضروریات پورا کرنے کے لئے جدت طرازی کی اجازت دیتی ہیں تاہم ڈیٹا کی خودمختاری اور ڈیٹا پروٹیکشنازم ممکنہ طور پر سرحد پار ڈیٹا کے آزادبہاو¿ میں رکاوٹ بن کر جدت طرازی کو متاثر کرسکتے ہیں۔ کچھ ممالک ’ڈیٹا لوکلائزیشن‘ کا نفاذ کرتے ہیں اور اس بات کو لازمی بناتے ہیں کہ مخصوص قسم کے ڈیٹا کو ان کی سرحدوں کے اندر محفوظ رکھا جائے۔ یہ ڈیٹا کے آزادانہ بہاو¿ میں رکاوٹیں پیدا کرسکتا ہے ۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر صاحبزادہ علی مہمند۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)