بچے اور غذائی قلت

پاکستان میں بچوں (اطفال) میں غذائی قلت کئی دہائیوں سے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس موضوع پر کئی اہم مطالعات موجود ہیں‘ جن میں نیشنل نیوٹریشنل سروے 2018ءبھی شامل ہے اور جس کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے چالیس فیصد سے زیادہ بچے نشوونما سے محروم ہیں ‘ لیکن سب سے اہم اور بڑی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو ناکافی غذا¿ ملتی ہے جبکہ ضرورت اِس بات کی ہوتی ہے کہ بچپن میں صحت مند کھانے کی عادات اپنائی جائیں جو بہترین جسمانی نشوونما کی ضامن ہوتی ہیں۔کسی بھی ملک میں خوراک کی فراہمی میں بہتری اور اس کے نتیجے میں غذائی کمی کے خاتمے کیلئے معاشی ترقی ناگزیر ہے۔ اس سے آبادی کی غذائی ضروریات پورا کرنے میں بہتری آتی ہے۔ واضح رہے کہ ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک سے تعلق رکھنے والے بچوں کی غذائی دستیابی میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے جیسا کہ چنلنگ لو نے دوہزارسولہ کی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ آمدنی کے لحاظ سے کم اور درمیانی وسائل رکھنے والے ممالک (جنہیں اصطلاحی طور پر ایل ایم آئی سیز کہا جاتا ہے) میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچے ہر سال غذائی قلت اور غربت کی وجہ سے جسمانی ترقی مکمل نہیں کر سکتے۔ ایک نوعمر کی زندگی کے معیار کے ساتھ ان کی جسمانی اور تعلیمی صلاحیت‘ بچپن میں اپنائی جانے والی غذائی عادات بھی اِس سے متاثر ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی بچوں کی غذائی قلت کی وجہ سے متاثرہ ممالک میں شمار ہوتا ہے اور گلوبل ہنگر انڈیکس میں 121 ممالک میں پاکستان کا شمار 99ویں نمبر پر ہے۔پاکستان سمیت بیشتر ترقی پذیر ممالک میں بچوں اور نوجوانوں کی صحت کے موضوع پر بہت ہی کم تحقیق کی جاتی ہے۔ غذائی کمی سے جڑے مسائل کی خاموش نوعیت‘ سیاسی مفادات اور مالی مشکلات اس مسئلے (بحران) کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس موضوع پر شائع شدہ اعداد و شمار کی کمی بھی اپنی جگہ پریشان کن ہے‘ جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں خوراک کی دستیابی کیلئے مناسب رہنما خطوط تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کیلئے حکومت‘ پروگرام منیجرز اور پالیسی سازوں کی توجہ مبذول کروانا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔فوڈ فورٹیفکیشن‘ صحت مند غذائی عادات اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچوں کیلئے درست غذائی اجزا¿ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے قومی سطح پر کوششیں جاری ہیں تاہم وہ بچے کہ جن کے دن کا کافی وقت تعلیمی اداروں میں گزارتا ہے اُن کی کھانا پینے کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنے ہاں طلبہ کو سکولوں میں کھانا دیتے ہیں اور تعلیم کے ساتھ اُن کی جسمانی نشوونما پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ ’ورلڈ فوڈ پروگرام‘ ایک معروف تنظیم ہے جس نے سکول میں خوراک کے بارے میں حکمت عملی تیار کی ہے۔ ڈبلیو ایف پی سکول فیڈنگ پروگرام (ایس ایف پی) نامی ایک حکمت عملی سال دوہزاربیس میں جاری کی گئی تھی اور یہ سال دوہزارتیس میں مکمل ہو گی۔ اِس حکمت عملی میں حکومتوں اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان شراکت داری کا نظریہ پیش کیا گیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ پرائمری سکول کے تمام بچوں کو سکول میں اچھے معیار کے کھانے تک رسائی حاصل ہو۔ اس میں صحت اور غذائیت کی خدمات کا وسیع تر مربوط پیکیج شامل ہے۔ پشاور کے مضافات میں معروف امریکی ماہر غذائیت نکولا لوو نے ایک دلچسپ مطالعہ کیا۔ اس مطالعے میں معیاری کھانا فراہم کرنے والے سکولوں‘ مائیکرو نیوٹرینٹ پاو¿ڈر کے ساتھ معیاری کھانا اور ایک مقامی سکول کے زیرتعلیم بچوں کے درمیان ذہانت کا موازنہ کیا گیا جن سکولوں میں دوپہر کا کھانا فراہم کیا جاتا تھا‘ اُن کے طلبہ کا موازنہ جب ایسے سکولوں سے کیا گیا کہ جہاں دوپہر کا کھانا فراہم نہیں کیا جاتا تو اُس سکول کے بچے زیادہ ذہین نکلے جنہیں بارہ ماہ باقاعدگی کے ساتھ مائیکرو نیوٹرینٹ پاو¿ڈر والی خوراک دی گئی تھی اور ایسے بچوں کی دماغی کارکردگی نمایاں طو پر بہتری تھی۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ’سکول فوڈ پروگرام‘ شروع کئے جائیں قابل ذکر ہے کہ حکومت نے ’توانا پاکستان پراجیکٹ‘ شروع کیا تھا جو دوہزاردو سے جون دوہزارپانچ تک جاری رہا لیکن یہ تجرباتی طور پر شروع کیا گیا ایک پروگرام تھا جو حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والا مشترکہ منصوبہ تھا اور اِس میں گنتی کے سکولوں میں دوپہر کا کھانا فراہم کیا گیا لیکن بعدازاں اِس تجرباتی منصوبے کو ختم کر دیا گیا۔ خراب اور نااہلی پر مبنی طرز حکمرانی کی وجہ سے سنگین معاشی اور سیاسی مسائل کے شکار پاکستان پہلے ہی بحرانوں سے گزر رہا ہے ریاست سے یہ توقع رکھنا کہ وہ تمام سرکاری سکولوں میں معیاری کھانا فراہم کرے گی جو پہلے ہی مفت یا سستی تعلیم فراہم کر رہی ہیں تو یہ اُمید رکھنا غیر معقول ہوگا۔ اس سلسلے میں این جی اوز‘ نجی اداروں اور رضاکار تنظیموں کو آگے آنا چاہئے جن کے کردار پر غور کیا جاسکتا ہے۔اگر حکومت نجی تعلیمی شعبے کو مراعات دے تو وہ بچوں کو معیاری خوراک کی فراہمی کی مرکزی پالیسی کے تحت کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی والدین کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بھرے ہوئے لنچ بکسیز (ٹفن) کے ساتھ سکول بھیجتے ہیں لیکن یہ سہولت تمام بچوں کو میسر نہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں کم آمدنی والے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کیلئے سکول کا کھانا مفت یا حکومت کی جانب سے سبسڈی پر دیا جاتا ہے۔ اگرچہ موجودہ معاشی اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ حکومت بھی اس سلسلے میں مو¿ثر عملی اقدامات کرے اور طلبہ کی جسمانی صحت کا خیال کرتے ہوئے اُنکے سکولوں میں غذا فراہم کی جائے تو اِس سے بچے غیرصحت مند کھانے پینے کی اشیاءکا استعمال ترک کر دینگے سکولز‘ کالجوں اور جامعات کی کینٹینوں میں غذائیت سے بھرپور غذائیں جیسا کہ دودھ‘ سبزی اور گوشت پر مبنی اشیائے خوردونوش‘ موسمی پھل پیش کئے جائیں تو اِس سے بچوں کی میکرو اور مائیکرو غذائی ضروریات پورا ہوں گی(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: نویرا علی بنگش۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)۔