جاپان کا مفید سفر

خطے کی بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال میں اقتصادی تعلقات اہم کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی غیر مستحکم معیشت اور سخت مالی صورتحال کے پیش نظر ’احتیاط کے راستے‘ پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ہر منزل کا انتخاب سوچ سمجھ کر کر رہے ہیں۔اپریل 2022ءمیں حکومت کی تبدیلی کے بعد بلاول اور حنا ربانی کھر جس نئی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں‘ اُس نے دفتر خارجہ کو تبدیل کرنے اور سال 2018ءسے 2022ءکے اوائل تک ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے حیرت انگیز کام کئے ہیں۔ ایک سال کے قلیل عرصے میں پاکستان ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر خود کو بہتر پوزیشن میں دیکھ رہا ہے اگرچہ چین اور سعودی عرب پاکستان کے بہترین دوست ہیں لیکن کئی دیگر معاملات بھی ہیں جن پر غور ہونا چاہئے۔۔وزیرداخلہ بلاول کا حال ہی میں ختم ہونے والا جاپان کا چار روزہ دورہ درست سمت میں اُٹھایا گیا اہم قدم ہے اور اس دورے کے حوالے سے ملنے والی اطلاعات حوصلہ افزا ہیں تاہم اِس بارے تجزیے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت ملک ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جاپان پاکستان کا دیرینہ دوست ہے اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تجارت کی پیشکش کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں دانشمندانہ سفارتکاری توازن برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے ۔ سعودی عرب اور چین وہ ممالک ہیں جنہوں نے ’آئی ایم ایف‘ کے بیل آو¿ٹ پیکج میں سہولت فراہم کرنے کے لئے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تاکہ ڈیفالٹ کے فوری مالی خدشات کو کم کیا جاسکے۔کم از کم پاکستان ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کر سکتا ہے جو امریکہ اور جاپان کو پاکستان اور چین کے قریبی تعاون سے لاحق ہیں۔بلاول بھٹو کے دورہ¿ جاپان نے واضح کیا ہے کہ خارجہ امور کی قابل ٹیم کے ساتھ پاکستان بنا کسی پریشانی مطلوب نتائج حاصل کر سکتا ہے۔ جاپان کو اپنی عمر رسیدہ آبادی کی خدمت اور کام کاج کے لئے نوجوان کارکنوں کی ضرورت ہے اور پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد موجود ہے۔ اگر ملک کی قیادت بروقت فیصلے کرے تو وہ پاکستان کی ہنرمند اور بغیرہنرمند افرادی برآمد کی جا سکتی ہے جو ایک اہم مقصد کی تکمیل ہوگا۔جاپان انسانی وسائل کی ترقی میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے پیشہ ورانہ ادارے جو مہارت پر مبنی تعلیم دیتے ہیں وہ معیاری نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے ٹوکیو میں مقیم پاکستانیوں کے ساتھ گفتگو میں خاص طور پر اس خامی کو اُجاگر کیا جسے حکومت کو جاپان میں ملازمتیں تلاش کرنے والے ہنرمند کارکنوں کی صلاحیت کو فروغ دینے کے لئے بڑے چیلنج کے طور پر لینا چاہئے۔ دوسری طرف چین روزگار کے مواقع پیش نہیں کرتا کیونکہ اس کی سرحدوں کے اندر پہلے ہی قریب ڈیڑھ ارب افراد موجود ہیں۔ جاپان کے زراعت اور لائیو سٹاک کے شعبوں کو بھی ہنر مند افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے جسے پاکستانی کارکن پورا کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ جاپانی زبان پر عبور حاصل کرسکیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بلاول اس خامی سے بھی آگاہ ہیں جیسا کہ جاپان میں ان کی تقاریر میں ذکر کیا گیا ہے۔ جاپانی قیادت کے ساتھ بلاول بھٹو کی بات چیت سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور تجارت بڑھانے سے متعلق کچھ معاہدوں کو حتمی شکل دینے میں مدد ملی ہے جن کی پاکستان کو سردست اشد ضرورت ہے۔ اگرچہ پاک جاپان معاہدوں کے ثمرات سامنے آنے میں وقت لگے گا لیکن جاپان اور پاکستان دونوں کی جانب سے دوطرفہ تعلقات کی دوبارہ توثیق اطمینان بخش ہے۔ بلاول بھٹو نے ٹوکیو میں جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) اور جاپانی کاروباری شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں ہیں اور دونوں ممالک کی قیادت دوطرفہ تعاون بڑھانے کی خواہاں ہے۔بلاول بھٹو کا دورہ وقفے کے بعد ہوا ہے اور ایک طرح سے بلاول پاکستان کے تعلقات پر جمی برف توڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جاپان میں اپنے ہم منصب یوشیماسا ہیاشی جو کہ سینئر سیاست دان بھی ہیں اور زراعت و دفاع سے لے کر تعلیم و جنگلات تک مختلف وزارتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں سے اُن کی ملاقات ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حیاشی نے اپنے والد کے سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ جاپان اب ایک بار پھر وزیر اعظم فومیو کیشیدا کی قیادت میں استحکام کی شاہراہ پر گامزن ہے جنہوں نے سابق وزیر اعظم سوگا کے دور میں غیر یقینی صورتحال کے بعد عہدہ سنبھالا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بھی اپریل دوہزارتیئس میں جاپان کا دورہ کیا اور معاشی و تجارتی محاذوں اور دوطرفہ تعاون پر خاطر خواہ معاہدے کئے۔ جاپان بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے کیونکہ اُس کے ہاں تیزی سے پھیلتا ہوا متوسط طبقہ اور پاکستان کے مقابلے عوام کی قوت خرید نسبتاً زیادہ ہے۔ پاک جاپان تعلقات میں تعلیم اور سرمایہ کاری پاکستان کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ بدقسمتی سے تعلیم اور سرمایہ کاری دونوں معاملات میں پاکستان کی حکومتوں کا ٹریک ریکارڈ قابل رشک نہیں رہا اور انسانی ترقی کے سب سے نچلے درجے پر ہونے کی وجہ سے پاکستان کے لئے موقع ہے کہ وہ مختلف خارجہ پالیسی کے بل بوتے پر اپنی ساکھ بہتر بنائے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر نذیر محمود۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)