سال 2018ءمیں امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگوں کے آغاز کے بعد سے دونوں فریق ایک دوسرے کو سرنگوں کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جسے تجزیہ کار اکثر ’سرد جنگ یا نئی سرد جنگ‘ کا نام دیتے ہیں تاہم سرد جنگ کے برعکس‘ دونوں فریق (امریکہ اور چین) اپنی اپنی دشمنی کو سنبھالنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور گزشتہ ایک سال سے اِس سلسلے میں کوششیں دیکھنے میں آ رہی ہیں کہ دونوں فریق آپسی کشیدگی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ اکتوبر دو ہزار بائیس کی امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی اور نومبر دوہزاربائیس میں بالی میں امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات نے امریکہ اور چین کے تعلقات میں تبدیلی کی نشاندہی کی ہے۔ حال ہی میں امریکہ اور چین کے اعلیٰ حکام کے درمیان دو اہم ملاقاتیں ہوئیں جنہیں ذرائع ابلاغ نے شہ سرخیوں میں پیش کیا۔ پہلی ملاقات امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور دفتر خارجہ کمیشن کے ڈائریکٹر اور چینی پولٹ بیورو کے رکن وانگ یی کے درمیان دس اور گیارہ مئی دوہزارتئیس کو ویانا میں ہوئی اِس ملاقات کی نمایاں خصوصیات میں دوطرفہ‘ علاقائی اور عالمی سلامتی کے امور پر تعمیری تبادلہ خیال تھا۔ ملاقات کا مقصد سٹریٹجک مواصلات کے اہم ذرائع کو برقرار رکھنا اور نومبر دوہزاربائیس میں بالی میں امریکی صدر بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان روابط کی روشنی میں تعلقات کو فروغ دینا تھا۔ اس پیشرفت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی و تجارت نے امریکہ اور چین کے دوطرفہ تعلقات میں چیلنجوں کے باوجود‘ دونوں فریق بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے تناو¿ کو کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ نوٹ کرنا بھی یکساں اہم ہے کہ دونوں فریق کشیدگی کو سنبھالنے کے لئے بات چیت جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ قابل ذکر دوسری ملاقات امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وانگ یی‘ چینی صدر شی جن پنگ اور چینی وزیر خارجہ چن گینگ کے درمیان اٹھارہ اور اُنیس جون دوہزارتیئس کو چین میں ہوئی۔ گزشتہ ملاقات کی طرح دونوں فریقین نے دوطرفہ‘ علاقائی اور عالمی مسائل کے حل کے لئے واضح‘ ٹھوس و تعمیری بات چیت کی۔ اجلاس کا مقصد
رابطوں کو برقرار رکھنا اور غلط تخمینے کے خطرات کم کرنے کے لئے بات چیت کو مزید فروغ دینا تھا۔ یہ اس لئے بھی اہم ہے کہ غیر متوقع بحران کے دوران دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کے کھلے ذرائع ہونے چاہئیں تاکہ غلط فہمی سے بچا جا سکے۔ امریکہ اور چین کے لئے یہ آبنائے تائیوان‘ بحر الکاہل‘ بحیرہ جنوبی چین اور دو طرفہ تجارتی پالیسیوں کے شعبوں میں بحران ہو سکتا ہے جیسا کہ ماضی کی تجارتی جنگوں کے دوران دیکھا گیا اگرچہ امریکہ چین کو شکست دینے کے لئے پرعزم ہے لیکن دونوں فریق وقت کے ساتھ‘ اپنی دشمنی کم کرنے میں تبدیل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مذکورہ ملاقات کے دوران امریکی اور چینی حکام مسابقت کے باوجود مشترکہ بین الاقوامی چیلنجز جیسے موسمیاتی تبدیلی‘ غذائی تحفظ‘ صحت عامہ‘ عالمی میکرو اکنامک استحکام اور انسداد منشیات سے نمٹنے کے لئے تعاون کے خواہاں تھے۔ وزیر خارجہ بلنکن نے اپنے چینی ہم منصبوں کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی اور دونوں فریقین نے مزید اعلیٰ سطحی رابطوں پر اتفاق کیا۔ جب دو مخالفین اپنے طریقوں کو درست کرنے والے ہوتے ہیں تو اس عمل میں خلل ڈالنے کے لئے عام طور پر سپوائلر فعال اور محتاط ہوجاتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ اُس وقت کیا گیا جب وزیر خارجہ بلنکن فروری میں بیجنگ کا دورہ کرنے والے تھے لیکن جاسوسی غبارے کے واقعے کی وجہ سے یہ دورہ ملتوی کردیا گیا تھا چونکہ دونوں بڑی طاقتیں باہمی تعاون کا ماحول بنانے کی راہ پر گامزن ہیں‘ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ امریکہ اور چین کی دشمنی سے فائدہ اٹھانے والے افراد سرگرم ہوجائیں گے۔ یہ واشنگٹن اور بیجنگ پر منحصر ہے کہ وہ ایسے حالات میں تعلقات کو پختگی سے منظم کریں جیسا کہ انہوں نے حال ہی میں کیا ہے۔عالمی استحکام کے لئے بڑی طاقتوں کے درمیان امن ضروری ہے۔ یوکرین میں روس کی جنگ اس بات کی ایک مثال
ہے کہ کس طرح ایک بڑی طاقت کی علاقائی دشمنی عالمی سطح پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اسی طرح‘ اگر امریکہ اور چین کا مقابلہ تنازعہ کی شکل اختیار کرتا ہے تو یہ بین الاقوامی امن اور سیاسی معیشت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سے ریاستوں کو کثیر قطبی دنیا میں فریق بننے پر مجبور کیا جائے گا جس سے بلاک اور کیمپ کی سیاست کو تقویت ملے گی لہٰذا بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے مسابقت کے انتظام کے لئے بروقت اقدامات موجودہ عالمی امن کا ایک اہم اصول ہے۔ پاکستان اور بھارت اس بات سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ اور چین کس طرح اپنی دشمنی سے نمٹتے ہیں۔ مودی حکومت نے پاکستان کے بارے میں غیر لچکدار اور جنگی پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں اگرچہ امریکہ اور چین پاکستان اور بھارت کی طرح قریب نہیں لیکن دونوں ریاستیں سٹریٹجک مواصلات کے ذرائع تیار کرنے کے لئے کام کر رہی ہیں اور ممکنہ غلط اندازوں کو دور کرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ اس کے برعکس بھارت اور پاکستان کے درمیان مواصلاتی ذرائع منقطع کر دیئے گئے ہیں۔ دونوں فریق فعال طور پر اپنے قریبی اتحادیوں کی مدد سے فوجی طاقت کو بڑھا رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے اِس صورتحال میں درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے برہموس بحران کے دوران پختہ سفارتکاری سے کام لیا تاہم اس طرح کے ایک اور غلط اقدام کی صورت میں‘ پاکستان کی طرف سے مناسب جواب کی توقع کی جانی چاہئے۔ جیسے جیسے بھارت میں انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں (مئی دوہزارچوبیس کے) انتخابات میں بھارتی عوام کو خوش کرنے کے لئے پاکستان کے بارے میں غلط باتیں پھیلائی جا رہی ہیں اور یہ بھارت کی سیاست میں معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ مودی سرکار نے ہندو انتہا پسندی میں اضافہ کرکے بھارت کی اندرونی سیاست میں جس روش کا آغاز کیا ہے اس سے بھارت میں مسلمانوں کے لئے مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور ان کو حیلوں بہانوں سے تنگ کیا جاتا ہے اور اس تمام عمل کا مقصد ہندو انتہا پسندوں کو خوش کرکے ان کے ووٹ حاصل کرنے کے ذریعے حکومت بنانا ہے ۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ماہین شفیق۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)