عالمی اِقتصادی ترقی‘ روزگار کے مواقع‘ منسلک معیشت سے جڑے ہوئے ہیں جن کی تکنیکی ترقی کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری (فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ FDI) چاہئے ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ غیرملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لئے ممالک کے درمیان مقابلہ رہتا ہے جس دوڑ میں پاکستان بھی شامل ہے تاہم پاکستان انوسٹمنٹ پالیسی (پی آئی پی) 2023ءجیسی ایڈہاک حکمت عملی کی خامیوں کو اُجاگر کرنا ضروری ہے۔ یہ پالیسی پہلے سے موجود اور طے شدہ ’ایف ڈی آئی‘ سے متعلق بنائی گئی ہے اور اِسی پر زیادہ توجہ بھی مرکوز کی گئی ہے‘جس میں وسیع پیمانے پر تحقیق کا فقدان پایا جاتا ہے جبکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت جامع اور شواہد پر مبنی سرمایہ کاری کی پالیسی بنائے اور اپنائے جو پاکستان کی حقیقی معاشی صلاحیت اور ضرورت کو پورا کر سکے اور اس کے ذریعے مستقبل کی خوشحالی ممکن ہو۔ ’پی آئی پی 2023ئ‘ میں بیس سے پچیس ارب ڈالر کی غیرملکی (ایف ڈی آئی) سرمایہ کاری حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قابل ذکر مالی تعاون کی توقعات شامل ہیں۔ اگرچہ سرمایہ کاری سے متعلق یہ تخمینے ابتدائی طور پر امید کو جنم دے رہے ہیں لیکن اچانک سرمایہ کاری کی حکمت عملیوں کے دیرپا اثرات کی جانچ پڑتال بھی ضروری ہے۔ بنیادی معاشی اصولوں پر مناسب غور کئے بغیر پہلے سے طے شدہ سرمایہ کاری کے اہداف حاصل کرنے کے ’منفی نتائج‘ بھی برآمد ہوسکتے ہیں لہٰذا معیشت کی پائیداری اور خوشحالی یقینی بنانے کے لئے وسیع تر مضمرات کا جامع جائزہ ضروری ہے۔پاکستان کو سال 2024ءمیں 25 ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے درکار ہیں۔ یہ غیرمعمولی طور پر بڑی مالیاتی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنا آسان نہیں اور ’اہم چیلنج‘ ہے جو پائیدار سرمایہ کاری کی حکمت ِعملی کی فوری ضرورت کو اُجاگر کرتا ہے۔ قرض کے وعدوں کو بروقت پورا کرنے کے لئے ’ایف ڈی آئی‘ پر حد سے زیادہ انحصار خطرناک ثابت ہوسکتا ہے‘ خاص طور پر جب ادائیگیاں ایک مخصوص ٹائم فریم کے اندر کرنا ہوں۔ بیرونی فنڈنگ پر حد سے زیادہ انحصار کی بجائے اس سے جڑے اور موجود خطرات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان کے لئے قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا اور اِس کے معاشی استحکام و طویل مدتی ترقی کے امکانات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اپنے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے پاکستان کو درپیش خطرات کو سمجھنا ترجیح بنانا چاہئے اور خطرات کو مو¿ثر طریقے سے کم کرنے کے اقدامات پر بھی عمل درآمد کرنا چاہئے۔ پاکستان کے لئے چند ممالک سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے وعدوں کو زیادہ سنجیدگی سے لینے سے ’ایڈہاک سرمایہ کاری پالیسی‘ کی اہمیت کم ہو سکتی ہے اگرچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ’ایف ڈی آئی‘ میں نمایاں حصہ ڈال سکتے ہیں لیکن چند ایک دوست ممالک پر حد سے زیادہ انحصار پاکستان کو جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں‘ معاشی تنزلی اور بدلتے ہوئے عالمی ماحول میں تنہائی کا شکار بنا دے گا۔ پاکستان کی ضرورت تحقیق پر مبنی سرمایہ کاری ہے جس کے لئے پالیسی مختلف ممالک‘ شعبوں اور صنعتوں کی سرمایہ کاری کو ہدف بنا کربنائی جا سکتی ہے جس سے زیادہ مضبوط اور لچکدار معیشت کا حصول یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ صرف ’ایف ڈی آئی‘ کو راغب کرنے پر توجہ مرکوز کرنا مقامی کاروباروں اور کاروباری افراد کی بے پناہ صلاحیتوں پر پردہ ڈال سکتا ہے اگرچہ غیر ملکی سرمایہ کاری بلاشبہ قابل قدر ہے لیکن اپنے وسائل سے قومی جدت طرازی‘ انٹرپرینیورشپ اور تکنیکی ترقی کا فروغ بھی یکساںاہم و ضروری ہے۔ حمایت یافتہ سرمایہ کاری کی پالیسی توازن قائم کرے گی جو مقامی انٹرپرائز کی ترقی کے لئے سازگار ماحول کو فروغ دے گی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرے گی۔ یہ نقطہ نظر معاشی ترقی‘ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے اور پائیدار ترقی تخلیق کرے گا۔ پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لئے‘ پاکستان ’اہم موڑ‘ پر کھڑا ہے جہاں اسے ایسی سرمایہ کار پالیسی تیار کرنا ہوگی‘ جو ملک کی معاشی طاقت و صلاحیت پر منحصر ہونی چاہئے۔ اس طرح کی پالیسی کا نفاذ انتہائی اہمیت کا حامل ہونے کی اہم وجوہات میں شامل ہے کہ پاکستان مختلف شعبوں میں اپنے تقابلی فوائد تسلیم کرے اور اِس سے فائدہ اٹھانے کے لئے بااختیار بنایا جائے۔ جامع مطالعے اور تجزئیوں کے ذریعے پالیسی ساز اِن صنعتوں اور شعبوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں جہاں پاکستان زراعت‘ ٹیکسٹائل‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی جیسی بنیادی طاقتوں کا حامل ہے اور اس نوعیت کا ہدف سرمایہ کاری کو راغب کرے گا جس کے نتیجے میں پیداواری صلاحیت اور ملازمتوں کے مواقع میں اضافہ ہوگا اور عالمی مارکیٹ میں اس کی مسابقتی برتری کو تقویت ملے گی۔ پاکستان کی معاشی ترقی کو اچھی طرح سے ڈیزائن کردہ سرمایہ کاری پالیسی پر عمل درآمد کے ذریعے مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی پالیسی سرمایہ کاری کے مختلف امکانات سے جڑے خطرات و انعامات کا احاطہ کرے گی اور مو¿ثر انداز میں جائزہ لینے کے لئے بااختیار بنائے گی۔ مکمل تحقیق اور تجزیہ پالیسی سازوں کو پائیدار استحکام‘ معاشی مضمرات اور مخصوص سرمایہ کاری سے وابستہ خطرے کے بارے میں قیمتی معلومات سے لیس بھی کرے گا۔ اگر درست انتخاب کیا جائے تو پاکستان سرمایہ کاری کے بہاو¿ کو اپنے حق میں زیادہ کر سکتا ہے جبکہ بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ کے ممکنہ نقصانات بھی کم کئے جا سکتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر غیرملکی سرمایہ کاری پر زیادہ سے زیادہ منافع کی ضمانت بھی دے گا اور اِس سے مستحکم معاشی مفادات کا حصول بھی ممکن ہوگا۔ شواہد پر مبنی حکمت عملی اپنا کر پاکستان اپنی حقیقی معاشی صلاحیت بروئے کار لا سکتا ہے‘ جو پائیدار و جامع ترقی کی بنیاد ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمیں صرف قلیل مدتی سرمایہ کاری کے اہداف طے نہیں کرنے چاہیئں بلکہ معاشی خوشحالی اور عوام کی فلاح و بہبود جیسی بڑی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے زیادہ بڑی سوچ اور زیادہ بڑے مالیاتی و ترقیاتی اہداف کے حصول کے لئے کوششیں کرنی چاہئیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ایم ذیشان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام