افغان مہاجرین : انسانی حقوق

کوئٹہ چمن روڈ پر ایک چھوٹا سا قصبہ ’سرانان‘ کچے گھروں پر مشتمل بستی ہے جہاں ایک افغان پناہ گزینوں کے خاندان کے پاس سنانے کو اچھے ماضی اور مشکلات بھرے حال کی کہانیوں پر مشتمل اثاثہ ہے۔بلوچستان کے ضلع پشین میں واقع اس گاو¿ں کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ یہ ابتدائی افغان پناہ گزین کیمپوں میں سے ایک ہے‘ جو 1979ءمیں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد قائم ہوا تھا اور یہ بلوچستان و خیبر پختونخوا کی حدود پر بھی قائم ہے۔ چار دہائیوں سے اب تک‘ اِس بستی کے بہت سے پناہ گزین افغانستان واپس جا چکے ہیں تاہم اب بھی افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد یہاں آباد ہے۔ سرنان کیمپ کی موجودہ آبادی ’تیس ہزار‘ سے زیادہ ہے۔ ابتدا میں یہاں خیمے لگائے گئے تھے لیکن اب پناہ گزینوں کے خیمے مٹی کے گھروں میں تبدیل ہو چکے ہیں لیکن یہ واحد تبدیلی نہیں ہے جو یہاں ہوئی ہے۔پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر جب ’سرنان افغان پناہ گزین کیمپ‘ کا دورہ اِس مقصد سے کیا گیا تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ اس کیمپ کے قیام کے بعد سے چالیس برس میں کیا کچھ تبدیل ہوا ہے اور جو ایک بات سب سے نمایاں تھی وہ افراتفری کے درمیان جاری تعلیم کا سلسلہ تھا۔ سرانان کے پناہ گزینوں نے سکول قائم کئے ہیں۔ ان سکولوں کو نمبروں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سکول نمبر بارہ افغان بادشاہ غازی امان اللہ خان کے نام سے قائم کیا گیا ہائی سکول ہے۔ اِس سکول کی ایک معلمہ محترمہ عزیزہ جو روایتی افغان لباس میں ملبوس تھی پشتو زبان اور ملی جلی اردو زبان میں بتایا کہ اُس نے خود بھی اِسی طرح کے ایک افغان پناہ گزین کیمپ سکول میں بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور اب معلمہ کے طور پر اپنے قوم کے بچوں کے لئے خود کو وقف کئے ہوئے ہیں۔ محترمہ عزیزہ نے کہا کہ مجھے پڑھنے لکھنے کی اجازت دینا میرے والدین کے لئے آسان فیصلہ نہ تھا۔ ایک وقت تک سرنان کے کسی بھی سکول میں طالبات کو داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ محترمہ عزیزہ نے یہ بھی کہا کہ ’زیادہ تر افغانوں کی جانب سے تعلیم حاصل کرنا‘ خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کا تعلیم حاصل کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن افغان خواتین نے ہمت نہیں ہاری اور آج اِسی استقامت کا فائدہ بطور خواندگی اٹھا رہی ہیں۔ محترمہ عزیزہ غازی ’امان اللہ خان ہائی سکول‘ میں پڑھانے والی 38 اساتذہ میں سے ایک ہیں‘ جس کے سربراہ پرنسپل ظاہر پشتون سمیت 38 اساتذہ میں سے 19خواتین ہیں اور وہ مجموعی طور پر اِس پناہ گزین کیمپ سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لڑکوں اور لڑکیوں کو پڑھاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں قائم یہ سکول افغان دارالحکومت کابل میں رجسٹرڈ شدہ ہے۔ افغان مہاجرین کے لئے تعلیم سے وابستگی اور تعلیم کا انتخاب درست فیصلہ ہے اگرچہ اُنہیں دھمکیاں بھی ملتی ہیں اور اِن تعلیمی اداروں پر الزام ہے کہ یہ مغربی این جی اوز (غیر سرکاری تنظیموں) کے پروپیگنڈے کو فروغ دیتے ہیں۔ افغان مہاجر کیمپ میں قائم سکول کے پرنسپل کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے جن میں مطالبہ کیا گیا کہ افغان بچوں‘ خاص طور پر قدامت پسند خاندانوں سے تعلق رکھنے والی افغان لڑکیوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ بند کیا جائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ صرف تعلیم ہی افغان مہاجرین کو غربت‘ جنگ اور جہالت سے نکال سکتی ہے۔ سرنان کیمپ میں زیادہ تر افغان پناہ گزینوں کا تعلق افغانستان کے صوبوں سر پول‘ فریاب اور جوزجان سے ہے۔ پرنسپل کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں میرے سکول سے سینکڑوں طالب علم فارغ التحصیل ہو چکے ہیں جس سے مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے۔ تعلیم وہ دوا ہے جس کی افغانوں کو ترقی اور خوشحالی اور امن دیکھنے کی ضرورت ہے۔ طلبہ بتاتے ہیں کہ ”بڑے ہو کر نیلسن منڈیلا‘ مہاتما گاندھی‘ خان عبدالغفار خان اور عبدالصمد خان اچکزئی بنیں گے۔ پناہ گزیں کیمپ میں مقیم افغان مہاجرین کی آنکھوں میں خواب ہیں۔ وہ زندگی کو جینا چاہتے ہیں اور ترقی یکساں مواقعوں کی اُمید میں ہر دن شمار کرنے والے یہ بلند حوصلہ انسان اپنے بنیادی حقوق کی ادائیگی بھی چاہتے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ایم اکبر نوٹیزئی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)