پاکستان کے پاس موقع ہے کہ وہ عالمی عدالت سے رجوع کرے اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی حمایت میں بین الاقوامی قانون کے مطابق انصاف چاہے۔ دسمبر دوہزاربائیس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) سے مغربی کنارے اور غزہ پر اسرائیل کے طویل قبضے کے قانونی نتائج کے بارے میں مشاورتی رائے طلب کی تھی اگرچہ یہ دوسرا موقع ہے جب جنرل اسمبلی نے آئی سی جے سے مقبوضہ فلسطینی علاقے سے متعلق مشاورتی رائے طلب کی ہے لیکن اِس درخواست کا دائرہ وسیع ہے۔ سال دوہزارچار میں آئی سی جے نے مشاورتی رائے سے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اسرائیل بین الاقوامیقوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس سلسلے کو ختم ہونا چاہئے۔ پاکستان کو ’آئی سی جے‘ کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پر باضابطہ درخواست کے ذریعے عدالتی رائے مرتب کرنے میں مدد کرنی چاہئے۔ پاکستان طویل عرصے سے اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں پر منظم جبر پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے اور اسرائیل کے ظالمانہ و طویل قبضے کی حقیقت کو تسلیم کرتا رہا ہے۔ مارچ میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ میں نیوز کانفرنس کے دوران اسرائیل کے نسلی امتیاز کا ذکر کیا تھا۔ بنیادی طور پر جنوبی افریقہ کے حوالے سے تخلیق کردہ نسل پرستی آج عالمگیر قانونی اصطلاح بن گئی ہے۔ خاص طور پر جب ادارہ جاتی امتیازات اور جبر یا نسلی امتیازات کی بات کی جاتی ہے تو اُن کے خلاف پابندی بین الاقوامی قانون کا بنیادی اصول ہے۔ بین الاقوامی فوجداری قانون‘ بشمول نسلی امتیاز جیسے جرم کو دبانے اور سزا دینے سے متعلق 1973ءکا بین الاقوامی کنونشن اور 1998کا روم قانون‘ جو بین الاقوامی فوجداری عدالت کا بانی دستاویز ہے‘ نسلی امتیاز کو انسانیت کے خلاف جرم کے طور پر بیان کرتا ہے جو تین بنیادی ابواب پر مشتمل ہے 1: نسلی گروہ کا دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ 2: پسماندہ گروہ پر غالب گروہ کی طرف سے منظم جبر کیا جائے اور 3: انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جائیں۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپریل دوہزاراکیس میں جاری کردہ اپنی رپورٹ ’اے تھریشولڈ کراسڈ‘ میں اس قانون کا اطلاق کرتے ہوئے طے پایا کہ اسرائیلی حکام انسانیت کے خلاف نسل پرستی اور فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم کے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں‘ فلسطینیوں پر یہودی اسرائیلیوں کے تسلط کو برقرار رکھنے اور مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کے خلاف سنگین زیادتیوں کے ساتھ جامع حکومتی پالیسی کی دستاویزات پر مبنی یہ نتیجہ فلسطینی‘ اسرائیلی اور انسانی حقوق کے دیگر بین الاقوامی گروپوں کی جانب سے مشترکہ ہے۔ حالیہ مہینوں میں اسرائیل کی جانب سے امتیازی سلوک اور جبر میں شدت آئی ہے۔ سال دوہزاربائیس میں مغربی کنارے میں قتل کے واقعات اور خفیہ شواہد کی بنیاد پر بغیر کسی مقدمے یا الزام کے حراست میں رکھے گئے فلسطینیوں کی تعداد کئی سالوں میں سب سے زیادہ تھی۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت نے ’رہنما اصول‘ کے طور پر نشاندہی کی ہے کہ دریائے اردن اور بحیرہ¿ روم کے درمیان کا تمام علاقہ یہودیوں کا ہے! اس صورت حال میں ’آئی سی جے‘ کی مشاورتی رائے کے کئی مضمرات ہوسکتے ہیں جن میں بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون‘ بین الاقوامی انسانی قوانین اور بین الاقوامی فوجداری قانون کی خلاف ورزیوں جیسا نتیجہ بھی شامل ہے۔ یہاں تک کہ اگر عدالت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ٹھوس نتائج تک نہیں پہنچتی‘ تو اِس کی رائے ان اہم بین الاقوامی قوانین‘ خاص طور پر ایسے قوانین کی تشریح کرنے کےلئے رہنمائی فراہم کر سکتی ہے‘ جیسا کہ نسلی امتیاز اور انسانیت کے خلاف اسرائیل کے جرائم۔ یہاں تک کہ اگر اتفاق رائے سے کام کرنے والی عدالت کچھ معاملات پر واضح فیصلہ جاری نہیں کرتی تو ججوں کی الگ الگ رائے بھی اسرائیل کے خلاف ایک طاقتور دلیل ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان کو عالمی عدالت پر زور دیا جانا چاہئے کہ وہ اسرائیل کا چھپن سالہ قبضے کے قانونی پہلوو¿ں کا وسیع پیمانے پر جائزہ لے‘ اور مغربی کنارے کو قبضے کے حوالے سے اسرائیلی منصوبوں کو دیکھا جائے۔تا ہے کہ اسرائیلی حکام بین الاقوامی قانون کے مطابق نسلی امتیاز اور ظلم و ستم جیسے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سروپ اعجاز۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام