گندھارا تہذیب: خواب اور حقیقت

پاکستان میں گندھارا تہذیب کے آثار اور منسوب مقامات کی سیر کے لئے دنیا بھر سے سیاح آ رہے ہیں۔ حال ہی میں اِس سلسلے میں ایک ’عالمی کانفرنس‘ کا بھی انعقاد کیا گیا جس میں بالخصوص بدھ مت کے پیروکار اور اُن ممالک کے نمائندہ وفود نے شرکت کی جہاں ’بدھ مت‘ سرکاری مذہب کے طور پر رائج ہے۔ گندھارا تہذیب کو تاریخی اہمیت کی حامل سمجھنے والے جو ممالک دلچسپی لے رہے ہیں اُن میں تھائی لینڈ‘ نیپال‘ ویت نام‘ چین‘ ملائیشیا‘ کوریا‘ سری لنکا‘ میانمار‘ کمبوڈیا‘ انڈونیشیا اور دیگر بدھ اکثریتی ممالک شامل ہیں۔ حال ہی میں بودھی بھکشو نے پاکستان کا دورہ کیا اور چند روز یہاں مقیم رہے۔ اِن کی پاکستان یاترا (آمد) کا مقصد وزیر اعظم کی ’خصوصی ٹاسک فورس برائے گندھارا ٹورازم‘ اور ہم خیال ’تھنک ٹینک نجی اداروں‘ کے تعاون سے منعقد ہونے والے پہلے بین الاقوامی گندھاراسمپوزیم میں شرکت تھی جس کے لئے وفود اسلام آباد انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اُترے اور اُنہوں نے مذکورہ سمپوزیم میں شرکت کے علاوہ گندھارا تہذیب کے مقامات پر حاضری بھی کی اور وہاں مختصر قیام کے دوران تاریخ کے اُن رشتوں کو زندہ بھی کیا جن پر دہائیوں سے مٹی پڑی ہوئی ہے۔بین الاقوامی بدھ راہبوں کے ہمراہ تخت بائی مردان کے قدیم گندھارا مقام کا دورہ کرتے ہوئے راقم الحروف کو ایسا لگا کہ جیسے کوئی شخص جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا ہو ۔ بین الاقوامی برادری کے سامنے ملک کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لئے ’مذہبی سیاحت‘ کو فروغ دینے کا خواب بالآخر حقیقت بن رہا ہے۔ اِس سمپوزیم سے قبل‘ بدھ بھکشوو¿ں‘ مختلف ممالک کے سفیروں اور ذرائع ابلاغ کے وفود کے ہمراہ جدید ٹیکسلا اور گندھارا دور کے عظیم تعلیمی مرکز‘ تکششیلا (Takshashila)کے قدیم شہر میں واقع قدیم دھرم راجیکاسٹوپا کا دورہ کیا۔ قدیم شہر ٹیکسلا کی اہمیت کے پیش نظر گندھارا ٹورازم سے متعلق وزیراعظم پاکستان کی بنائی ہوئی ’ٹاسک فورس‘ نے ایک اعلامیہ بھی تیار کیا ہے جسے کانفرنس کے مندوبین اور سفیروں کے ساتھ شیئر کیا گیا۔ راقم الحروف کو یقین ہے کہ اِس عاجزانہ کوشش کو تاریخ میں ’تکششیلا اعلامیہ‘ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
بین الاقوامی مندوبین نے ٹیکسلا اور پشاور کے عجائب گھروں کا دورہ بھی کیا۔ اِس موقع پر راہبوں سے ہوئی بات چیت میں اِس بات کا خصوصی طور پر اظہار کیا گیا کہ گندھارا کے بارے میں بہت کچھ پڑھنے اور سننے والوں کو جب اِس سے متعلقہ مقامات اور آثار کو قریب سے دیکھنے کا پہلا اور نادر موقع خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وہ اپنے آبائی ممالک واپس جانے کے بعد پاکستان اور پاکستان کے عوام کے بارے میں اچھی باتیں اور یادیں لیکر جائیں گے۔ ذہن نشین رہے کہ گندھارا سیاحت کے فروغ کے لئے جب وزیر اعظم کی ٹاسک فورس نے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور بدھ مت زائرین نے تخت بھائی کا دورہ کیا تو راقم الحروف نے اُس وفد کی قیادت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور اُس وقت یہ بالکل ناممکن دکھائی دے رہا تھا کہ دنیا کے مختلف ممالک سے بدھ بھکشو پاکستان کا دورہ کر سکیں گے تاہم جہاں ارادہ موجود ہو اور جہاں نیک نیتی کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے تو راستے نکل ہی آتے ہیں۔ ذاتی طور پر راقم الحروف کا ماننا ہے کہ ہر قوم اور ملک کا کوئی نہ کوئی خواب ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھے۔ امریکہ کے 16ویں صدر ’ابراہم لنکن‘ نے اپنی قوم کو سپر پاور بننے کا خواب دیا۔ اسی طرح چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی اپنی قوم کو عالمی سطح پر متعارف کرایا اور چین کی صنعتی و سفارتی طاقت کو منوایا۔ ہمارے بزرگوں نے بھی ایک خودمختار اور آزاد ریاست کا خواب دیکھا تھا جو بانی¿ پاکستان قائد اعظم کی دور اندیش قیادت میں پورا ہوا۔ ایک محب وطن پاکستانی شہری ہونے کے ناطے راقم الحروف کا بھی خواب ہے کہ پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر ہو اور پاکستان کا تعارف ترقی یافتہ‘ پرامن اور خوشحال ملک کے طور پر کیا جائے۔ ’گندھارا ڈریم‘ کے ساتھ پاکستان نے مذہبی سیاحت کے فروغ سے متعلق ’واضح اہداف‘ مقرر کئے ہیں اور اِس کوشش میں بڑی کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ مجھے اِس بات کا یقین ہے کہ سینکڑوں سال پہلے ہماری سرزمین پر پھلنے پھولنے والی عظیم گندھارا تہذیب دنیا کی ’اَنوکھی قدیم‘ تہذیب ہے۔ اِس تہذیب کے باقی ماندہ آثار میں ہر پتھر‘ ہر کھنڈر‘ ہر کونا کوئی نہ کوئی کہانی بیان کر رہا ہے۔ گندھارا ورثہ پراسرار ہے اور اِس کی پراسراریت جدید دور میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ گندھارا کے اہم مقامات کو دیکھنا دنیا کے ہر بدھ مت پیروکار کا خواب ہے لہٰذا ہمیں اِس جانب راغب کرنے کے لئے غیرملکی سیاحوں کے لئے سہولیات کی فراہمی کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ (مضمون نگار رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ بشکریہ: ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)