نیٹو رکنیت : یوکرین کی توقعات 

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی طرف سے مہم اور التجا کے باوجود‘ ولنیئس سربراہ اجلاس نے یوکرین کے لئے نیٹو رکنیت کے لئے کوئی ٹائم ٹیبل نہیں دیا‘ نیٹو نے اپنے سرکاری اعلامیے کے پیراگراف گیارہ میں تسلیم کیا کہ ”یوکرین کا مستقبل نیٹو میں ہے۔“ واضح وجوہات کی بنا پر‘ یوکرین کے الحاق کے لئے طے شدہ ٹائم لائنز اور شرائط کی عدم موجودگی کو میڈیا نے زیلینکی کے لئے ذاتی دھچکے کے طور پر پیش کیا ہے جنہوں نے اِس امید کا اظہار کیا تھا کہ گیارہ تا بارہ جولائی کو ولنیئس میں نیٹو سربراہ اجلاس میں یوکرین کو دفاعی اتحاد میں شامل کر لیا جائے گا۔ بظاہر اس طرح کی دعوت کی عدم موجودگی نیٹو کے رکن ممالک کی جانب سے اختیار کئے جانے والے محتاط رویئے کی عکاسی کرتی ہے‘ جو روس کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتے تاہم حقیقت یہ ہے کہ نیٹو سربراہ اجلاس سے زیلنسکی کی توقعات سے کہیں زیادہ تھیں۔ کیف کو انتہائی فراخدلانہ مالی اور فوجی امداد کے ساتھ نیٹو یوکرین کونسل کی تشکیل کے غیر متزلزل وعدے یاد دلائے گئے۔ ولنیئس سربراہ اجلاس نے اس ناقابل تردید حقیقت کو اُجاگر کیا ہے کہ یورپی میدان میں یوکرین کی پوزیشن مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ صدر زیلینسکی کو شاید دعوت نامہ موصول نہ ہوا ہو لیکن اس سربراہی اجلاس نے یوکرین کی فتوحات کو سراہا۔ قابل ذکر ہے کہ جی سیون سے فوجی اور اقتصادی امداد ملنے کا وعدہ کیا گیا ہے جبکہ سولہ شراکت دار ممالک کے تعاون سے ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی تربیت بھی شروع کردی گئی ہے۔ جرمنی نے بھی یوکرین کو اضافی فوجی امداد کے طور پر ستر کروڑ یورو کا وعدہ کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”یوکرین کا مستقبل نیٹو میں ہے“ کا رسمی اعلان یوکرین اور اِس اتحاد کے مابین شراکت داری کو مضبوط کرتی ہے۔ اسی طرح نیٹو کے بعض رکن ممالک اپنی اہمیت بڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی اور امن معاہدے کی موجودگی سے مشروط اس طرح کے انتظامات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ مزید برآں رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی بھی اسی طرح کی یقین دہانیوں پر غور کر رہے ہیں۔ نیٹو کے حالیہ سربراہ اجلاس نے یوکرین تنازعہ کے سلسلے میں ایک اور اہم پیش رفت حاصل کی ہے اور وہ نیٹو یوکرین کونسل کا آغاز ہے۔ اس اہم اقدام میں کیف اور اتحاد کے اکتیس ارکان کے پاس مشاورت اور مشترکہ فیصلہ سازی کے لئے مخصوص پلیٹ فارم ہوگا۔ اپنے مشاورتی کام کے علاوہ‘ کونسل بحران کے انتظام کے لئے اہم میکانزم کے طور پر بھی کام کرے گی‘ جس سے کیف کو ضرورت پڑنے پر فوری اجلاس بلانے کے قابل بنایا جائے گا۔ مزید برآں‘ اس کونسل کے بیان کردہ مقصد نیٹو اتحاد کے ساتھ یوکرین کے تعاون کی حد کو بڑھائیں گے‘ جس سے گہری اور قریبی شراکت داری میں اضافہ ہوگا تاہم نیٹو یوکرین کونسل کے قیام‘ جس کا بظاہر مقصد یوکرین کے ساتھ مواصلات اور مشاورت کو بڑھانا ہے‘ خطے کے تناو¿ میں اضافہ کر سکتا ہے۔ ماسکو اسے یوکرین کو باضابطہ رکنیت کا درجہ دیئے بغیر علامتی ’میز پر نشست‘ دینے کی بالواسطہ کوشش کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سے کونسل کی تشکیل روس کو مزید تنہا کرنے اور نیٹو کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی سوچی سمجھی چال ہے اگرچہ نیٹو یوکرین کونسل کو یوکرین کی اُمنگوں کی حمایت کے علامتی اشارے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے لیکن علاقائی استحکام کے لئے اس کے مضمرات اور ممکنہ نتائج کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ناقدین کا الزام ہے کہ نیٹو یوکرین کونسل کے قیام کو اس کے عزائم کا تازہ ترین مظہر قرار دیتے ہوئے ٹرانس اٹلانٹک اتحاد نے ایک بار پھر تنظیم کے توسیع پسندانہ ایجنڈے کو بے نقاب کیا ہے جس سے یورپی خطے کی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ کیف اس کونسل کے ذریعے جن بحرانی اجلاسوں کا انعقاد کر سکتا ہے انہیں کشیدگی کو بھڑکانے اور روس کو مشتعل کرنے کی ڈھکی چھپی کوشش سمجھا جا رہا ہے۔سال دوہزارآٹھ میں نیٹو نے اشارہ دیا تھا کہ یوکرین ممکنہ طور پر اتحاد میں شامل ہو سکتا ہے لیکن جب یوکرین نے ستمبر دوہزاربائیس میں ’فاسٹ ٹریک‘ رکنیت کی درخواست کی تو اسے مسترد کر دیا گیا۔ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت میں تیزی لانے میں ہچکچاہٹ کی جڑیں نیٹو کے چارٹر میں آرٹیکل فائیو میں ہیں‘ جس میں کہا گیا ہے کہ ایک رکن پر حملے سے دیگر ممالک میں اجتماعی دفاعی ردعمل پیدا ہوگا۔ اگر روس کے ساتھ جاری تنازع کے دوران یوکرین نیٹو میں شامل ہوتا ہے تو اس کے لئے نیٹو کے تمام رکن ممالک کو روس کے خلاف اعلان جنگ کرنا پڑے گا جبکہ حالیہ نیٹو سربراہ اجلاس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ یوکرین کو ایک رکن کی حیثیت سے شمولیت کی دعوت دی جائے گی جب اتحادی متفق ہوں گے اور شرائط پوری ہوں گی۔ یہ اعلان اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے فیصلہ اتفاق رائے اور مخصوص معیار کی تکمیل پر منحصر ہے۔یوکرین کے صدر زیلنسکی اچھی طرح جانتے ہیں کہ روس کے ساتھ تنازعے کے دوران یوکرین نیٹو میں شامل نہیں ہو سکتا لیکن انہوں نے سٹریٹجک طور پر اس مخمصے کو نیٹو قیادت پر دباو¿ ڈالنے کے لئے استعمال کیا ہے اور اضافی مراعات حاصل کی ہیں۔ نیٹو کی رکنیت کے حل طلب سوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیلنسکی کا مقصد فوری رکنیت کے دائرے سے باہر فائدہ مند نتائج حاصل کرنا ہے۔ مستقبل قریب میں نیٹو کو درپیش ایک اور اہم مخمصہ اِس بات کا تعین کرنا ہے کہ یوکرین ممکنہ طور پر نیٹو اتحاد میں شامل ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ایک ایسا فیصلہ جو نہ صرف جنگ کے اختتام پر بلکہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ یہ کس طرح اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یہ طے کرنا کہ یہ جنگ کب تک جاری رہے گی اور کب ختم ہو گی۔ نیٹو کی قیادت کے لئے یہ سب طے کرنا بڑا چیلنج ہے۔ معاملات کو مزید پیچیدہ بنانے والی حقیقت یہ ہے کہ روس کو یوکرین کے ساتھ تنازعہ جاری رکھنے میں دلچسپی ہو سکتی ہے۔ یہ الجھن تنازعہ کی نوعیت اور اس کے ممکنہ حل کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتی ہے۔ اب تک، نیٹو نے روس یوکرین جنگ کے خاتمے پر تبادلہ خیال کیا ہے لیکن جنگ ختم ہونے کے آثار نہیں ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ:ابوالحسن امام)