خالصتان کی بحث

سکھ مذہب کے ماننے والے بھارت میں علیحدہ صوبے کی مانگ کر رہے ہیں جسے ”خالصتان تحریک“ کہا جاتا ہے اور یہ تحریک ایک بار پھر‘ پہلے سے زیادہ توانا ابھر کر سامنے آئی ہے جو آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ برطانیہ اور امریکہ میں حامی رکھتی ہے۔ آزاد سکھ ریاست کے معروف وکیل ہردیپ سنگھ نجار کے پراسرار قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ عالمی تحریک شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اِس نے توجہ حاصل کر لی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے مطلوب دہشت گرد قرار دیئے جانے والے نجار سنگھ کو کینیڈا کے شہر وینکوور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے نے بڑے پیمانے پر رد عمل کو جنم دیا اور سکھ برادری اور بھارتی حکام کے درمیان تناو¿ میں اضافہ ہوا‘ جس سے مغربی دنیا میں خالصتان تحریک اور اس کے مضمرات کے بارے میں بحث چھڑ گئی۔ ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے بعد مغربی ممالک میں سکھ برادری سمیت خالصتان کے حامیوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کیا اگرچہ سکھوں کے زیادہ تر مظاہرے پرامن تھے لیکن اِس دوران تشدد کے واقعات بھی رونما ہوئے جس میں ایک مثال سان فرانسسکو میں بھارتی قونصل خانے کو نذر آتش کرنا ہے۔ کینیڈا‘ جہاں بھارتی پنجاب سے باہر سکھوں کی سب سے بڑی آبادی رہتی ہے‘ وہ بھی بھارت مخالف مظاہروں کا مرکز بن گیا‘ جس سے کینیڈا اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہوئے‘ بھارتی حکام نے کینیڈین حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنی سرحدوں کے اندر سرگرم خالصتان گروپوں کا خاطرخواہ مقابلہ نہیں کر رہی جبکہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے تشدد اور انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہوئے اظہار رائے کی آزادی کے لئے کینیڈا کے عزم کا پر زور دفاع کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تناو¿ برقرار ہے۔ کینیڈا کی حکومت کو اظہار رائے کی آزادی اور قومی سلامتی کے خدشات کے درمیان توازن قائم کرنے جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے کیونکہ وہ سکھوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ممکنہ خطرات سے نمٹتی ہے۔ کینیڈا اور بھارت کے درمیان سفارتی تنازعہ نے ایک غیر معمولی صورتحال پیدا کر رکھی ہے جہاں خالصتان کے حامیوں اور مودی کی حمایت کرنے والے تارکین وطن گروپوں نے شمالی امریکہ‘ برطانیہ اور آسٹریلیا میں متوازی ریلیوں کا انعقاد کیا ہے۔ غیر ملکی سرزمین پر مقیم بھارتی تارکین وطن کے دو گروہوں کے درمیان یہ ٹکراو¿ معاصر تاریخ میں انوکھی پیش رفت ہے۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے ان واقعات کی سنسنی خیز کوریج نے اِس کشیدگی کو مزید ہوا دی ہے جس کا ممکنہ مقصد حکمراں بی جے پی حکومت کے لئے حمایت حاصل کرنا ہے۔خالصتان تحریک اُنیس سو ستر اور اُنیس سو اَسی کی دہائی میں بھارت میں سکھوں کی مبینہ سیاسی اور معاشی پسماندگی کے جواب میں اُبھری۔ اس تحریک کا مقصد پنجاب کے علاقے میں خالصتان کے نام سے آزاد سکھ ریاست قائم کرنا ہے اگرچہ 1990ءکی دہائی میں اس تحریک کی رفتار کچھ کم ہوئی لیکن مغربی دنیا میں یہ تحریک فعال رہی۔ کینیڈا خاص طور پر اِس تحریک کا مرکز ہے جہاں اَسی اور نوے کی دہائیوں کے اوائل میں اپنے عروج کے دوران کینیڈا کے کچھ ممتاز سکھوں نے خالصتان کے مقصد کے لئے عوامی طور پر حمایت کا اظہار کیا۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ کینیڈا میں مقیم سکھ برادری کی اکثریت خالصتان تحریک کی حمایت کرتی ہے لیکن تمام سکھ اِس تحریک سے متفق نہیں۔ کینیڈا کے مقابلے میں امریکہ میں اِس تحریک کا اثر کم ہے لیکن تحریک وہاں بھی موجود ہے۔ امریکہ میں مقیم سکھ برادری ’خالصتان کاز‘ کے بارے میں نہ صرف امریکہ بلکہ عالمی سطح پر بھی بیداری پیدا کرتی ہے اور اِس سلسلے میں تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں اور لابنگ کی کوششوں میں مشغول رہتی ہے۔ اگرچہ چھوٹے پیمانے پر اس تحریک نے امریکہ میں اپنی پہچان بنائی ہے‘ جس سے خالصتان تحریک کی عالمی رسائی اور اثر کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ خالصتان کے حامی مواد کو فروغ دینے کے لئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے‘ پنجاب اور مغربی دونوں ممالک میں نوجوان سکھ معلومات اور تجزیے کے لئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انحصار کرتے ہیں۔ خالصتان کے حامی گروپ ٹویٹر‘ فیس بک‘ انسٹاگرام اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز کو مو¿ثر طریقے سے ریفرنڈم جیسی مہم چلانے کےلئے استعمال کرتے ہیں تاکہ خالصتان نامی آزاد ملک کے قیام کے بارے میں یورپ اور شمالی امریکہ میں رہنے والے سکھوں کی رائے کا اندازہ لگایا جا سکے۔ صرف ٹورنٹو میں لاکھوں سکھوں نے حال ہی میں اِس مہم میں حصہ لیا‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خالصتان کاز کی حمایت تارکین وطن زیادہ بڑھ چڑھ کر کر رہے ہیں۔ خالصتان نواز تارکین وطن سے نمٹنے کے لئے بھارتی حکومت کا نقطہ نظر نادانستہ طور پر کمیونٹی کے اندر حمایت میں اضافہ کرسکتا ہے کیونکہ مغرب میں لوگ بے خوف ہوکر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں جبکہ حکام اظہار رائے اور اختلاف رائے کی آزادی کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ خالصتان تحریک کیا ہے اور اِس کے اثرات مغربی ممالک کی سیاست و معاشرے پر کیا مرتب ہو رہے ہیں یہ بھی ایک دلچسپ موضوع ہے لیکن کسی بھی حکومت کی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے خالصتان تحریک کا مستقبل غیر یقینی سے دوچار ہے تاہم بھارت کو خالصتان تحریک کے حامیوں نے پریشان کر رکھا ہے اور بھارت ایک غیر متوقع چیلنج سے نبرد آزما ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ارشاد محمود۔ ترجمہ :ابوالحسن امام)