دریافت : حیرت انگیز دنیا

دنیا دریافت کے حیرت انگیز ہنر سے آشنا ہو چکی ہے۔ سچائی کی کھوج اور تلاش افسانوی نہیں رہی۔ تکنیکی ترقی کی بدولت‘ ہمیں پودوں کو ا’گانے کے لئے مزید بیجوں کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ پودوں کے ٹشو کلچر نے بہت سے اقسام کے پودوں کو اُگانے کے طریقے تبدیل کر دیئے ہیں۔ اِسی طرح دیگر انواع و اقسام کی ایجادات اس سے بھی کہیں زیادہ ناقابل یقین ہیں جیسا کہ نابینا افراد اپنی زبان پر رکھے گئے لولی پاپ ڈیوائس کے ذریعے جزوی طور پر اپنی بینائی بحال کرسکتے ہیں۔ اشیا کو میٹا میٹریل کی ایک خاص چادر کے ساتھ ڈھانپنے سے غائب کیا جاسکتا ہے۔ عمر بڑھنے کے عمل کو سست کیا جاسکتا ہے‘ یہاں تک کہ الٹا بھی کیا جاسکتا ہے‘ کچھ اینٹی ایجنگ مرکبات جیسے ریسویراٹرول‘ نکوٹینامائڈ ایڈینین ڈائی نیوکلیوٹائڈ (این اے ڈی)‘ کرکومین اور میٹفارمین کا استعمال کرتے ہوئے عمر کی رفتار کم کی جا سکتی ہے اور اِسی طرح جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے لیبارٹری میں جانوروں اور پودوں کی نئی اقسام کو ’تخلیق‘ بھی کیا جاسکتا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی کی آمد نے نئے مواد‘ دوا سازی اور الیکٹرانکس جیسے شعبوں میں بڑی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ کوانٹم کمپیوٹنگ کے ساتھ مل کر مصنوعی ذہانت دنیا اُور اِس کی تہذیب تبدیل کر رہی ہے۔ بائیو زراعت پہلے ہی کھاری بنجر زمینوں پر خوردنی پودے اگانے کو ممکن بنا رہی ہے اور جلد ہی ہم گندم‘ چاول‘ پھل اور سبزی کی ایسی اقسام تیار کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں جو سمندری پانی سے بھی اگائی جا سکیں گی‘ اس طرح کرہ¿ ارض پر غذائی تحفظ کے مسائل مستقل طور پر حل ہوجائیں گے۔ ہم اپنی کاروں اور بسوں میں جو کمبسشن انجن استعمال کرتے ہیں وہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے کیونکہ اس کی جگہ لیتھیم یا سوڈیم بیٹریوں پر چلنے والی برقی گاڑیاں لے رہی ہیں اور جلد ہی ہماری موجودہ گاڑیاں صرف عجائب گھروں اور تاریخ کی کتابوں کی زینت بن جائیں گی۔ یہ ناقابل یقین پیش رفت فرضی نہیں بلکہ ہمارے ارد گرد رونما ہو رہی ہے اور تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک تیزی سے آتے بڑھ رہے ہیں۔ اب صرف کاشتکاری کرنا کافی نہیں رہا بلکہ درست کاشت کاری اور جینیاتی انجینئرنگ سے لے کر نینو میٹریلز اور طبی اختراعات رائج ہیں۔ پاکستان کو ان اہم دریافتوں سے وابستہ ممکنہ فوائد‘ چیلنجوں اور اخلاقی غور و فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔سائنسی دریافت کا دائرہ کار درحقیقت حیرت کا مجموعہ ہے‘ جو ترقی کو آگے بڑھا رہا ہے اور مستقبل کی تشکیل کرتا ہے۔ کچھ انتہائی دلچسپ نئی پیش رفتوں میں ہماری زندگی کے مختلف پہلوو¿ں میں انقلاب لانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے‘ خوراک کی پیداوار اور پائیداری بڑھانے سے لے کر صحت کی دیکھ بھال میں کامیابیوں کو ممکن بنانے اور جدید ترین ٹکنالوجیوں کی تخلیق تک ہر چیز میں ترقی ہو رہی ہے۔ میک کنزی کی ایک رپورٹ میں نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے 33 کھرب ڈالر کے اثرات کی پیش گوئی کی گئی ہے‘ جس میں صرف مصنوعی ذہانت پر پندرہ کھرب ڈالر سے زیادہ خرچ کئے جا رہے ہیں لیکن اگر ہم اِس حوالے سے پاکستان کی سرمایہ کاری دیکھیں تو یہ نہ ہونے کے برابر ہے اُور اگر عالمی صلاحیت کا ایک فیصد بھی پاکستان حاصل کر لے تو اس کے نتیجے میں برآمدات میں 156 ارب ڈالر کا اضافہ ممکن ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ملک بھر میں مصنوعی ذہانت کے مراکز قائم کئے جائیں۔ ہماری کوششوں سے ہری پور ہزارہ میں اس طرح کے تین مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ سمبڑیال‘ سیالکوٹ میں پاک یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز اور جامعہ کراچی میں کیمیائی اور حیاتیاتی علوم کا بین الاقوامی مرکز بھی قائم ہوا ہے یہ مراکز صحت‘ زراعت اور صنعت میں مصنوعی ذہانت کی لاتعداد ایپلی کیشنز پر توجہ مرکوز کریں گے۔ اسلام آباد میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے چالیس ارب روپے کے ایک اور میگا پراجیکٹ کی فزیبلٹی مکمل کر لی گئی ہے اور اس سے تیزی سے ابھرتے ہوئے اس شعبے میں ہماری مہارت کو قومی سطح پر بہت زیادہ فروغ ملے گا۔ ان منصوبوں میں مشین لرننگ الگورتھم میں تربیت شامل ہے جو ڈیٹا کی بڑی مقدار کے ساتھ مل کر کمپیوٹرز کو پہچاننے‘ پیشگوئیاں کرنے اور تجربے سے سیکھنے کے قابل بناتا ہے۔ انسانی دماغ کے اعصابی نیٹ ورکس سے متاثر ڈیپ لرننگ ماڈل‘ تصویر اور تقریر کی شناخت‘ قدرتی زبان کی پروسیسنگ اور خود مختار نظام میں مہارت رکھتے ہیں۔ روبوٹکس اور آٹومیشن ٹیکنالوجیز واقعی مینوفیکچرنگ اور صحت کی دیکھ بھال سے لے کر نقل و حمل اور زراعت تک کی صنعتوں میں انقلاب برپا کر رہی ہیں۔ مشترکہ روبوٹس (کوبوٹس)‘ ایکسوسکیلیٹنز اور خود مختار گاڑیاں کاموں کو انجام دینے کے طریقے کو تبدیل کرتے ہوئے اِن کی کارکردگی میں اضافہ کر رہی ہیں اور انسانی غلطی کم کرنے کا باعث ہیں۔ زراعت کے شعبے میں حالیہ پیش رفت پر غور کیا جائے تو ’جی پی ایس‘ گائیڈڈ آلات اور ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی جیسی درست کاشتکاری کی تکنیکوں کی آمد کسانوں کو دستیاب وسائل کی تقسیم بہتر بنانے اور فصل کی پیداوار بڑھانے کے قابل بنا رہی ہے۔ سنسر پر مبنی نظام‘ رئل ٹائم ڈیٹا تجزیات اور مشین لرننگ الگورتھم کسانوں کو آبپاشی‘ کھادوں کے درست تناسب سے استعمال اور کیڑوں پر قابو پانے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ ایسی مشینیں بھی ایجاد کر لی گئی ہیں جو کھیت سے غیرضروری اور نقصاندہ جڑی بوٹیوں کو ازخود تلاش کر کے اُنہیں تلف کرتی ہیں۔ جینیاتی انجینئرنگ سائنس دانوں کو بہتر خصوصیات کے ساتھ فصلیں تیار کرنے میں مدد دے رہی ہے جیسے پیداوار میں اضافہ‘ بیماری کے خلاف مزاحمت اور غذائی مواد کی فراہمی وغیرہ۔ بائیو ٹیکنالوجی ٹولز کی مدد سے جین ایڈیٹنگ کی درست صلاحیتیں کسی فصل کو بہتر بنانے اور ماحولیاتی اثرات کم کر سکتی ہے۔ جین ایڈیٹنگ ٹیکنالوجیز زراعت اور ادویات میں نئی اور زیادہ پیداوار والی فصلوں کی ترقی کے ساتھ جینیاتی خرابیوں اور بیماریوں کے علاج کے لئے مفید ہیں۔ مصنوعی حیاتیات حیاتیاتی نظاموں کے ساتھ انجینئرنگ کے اصولوں کو جوڑتی ہے تاکہ پودوں اور جانوروں کی زندگی کے لئے نئے حیاتیاتی حصوں‘ آلات اور نظاموں کو تخلیق کیا جاسکے۔ ( بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ ابوالحسن امام)