سی پیک: تبدیلی کی ایک دہائی

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے دس سال رواں ماہ پورے ہوئے ہیں۔ اِس موقع پر کثیرالجہتی ترقیاتی منصوبے کے تحت عبور کئے جانے والے اہم سنگ میل کا جشن منایا جا رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ چین کے صدر شی جنپنگ نے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی)‘ نامی ایک منصوبے کا اعلان کیا جس میں سی پیک بھی شامل ہے۔ بلاشبہ موجودہ دہائی میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کے امکانات کو وسعت ملی ہے اور ’سی پیک‘ کی وجہ سے بالخصوص پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئے ہیں اور خاص بات یہ بھی ہے کہ چین پہلے سے زیادہ پاکستان کی ترقی کا غیر متزلزل عزم رکھتا ہے۔ اس پائیدار شراکت داری کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ چین پاکستان کی ترقی کو فروغ دینے کے لئے خاطر خواہ سرمایہ کاری‘ قرضوں اور مالی امداد (گرانٹس) کی شکل میں فراخدلی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ قابل ذکر سی پیک کی ابتدا پانچ جولائی دوہزارتیرہ کے روز ہوئی جب اِس راہداری منصوبے کے حوالے سے چین اور پاکستان کے درمیان مفاہمت کی پہلی یادداشت (ایم اُو یو) پر دستخط ہوئے تھے تاہم اپریل دوہزارپندرہ میں چین کے صدر شی جن پنگ کے تاریخی دورہ پاکستان سے قبل ہی سی پیک پر کام کا آغاز کر دیا گیا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان ترقی اور تعاون کے ’انقلابی سفر‘ شروع ہو چکا تھا۔ سی پیک پاکستان اور چین کی مشترکہ خوشحالی‘ رابطے اور پائیدار دوستی کی علامت ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین کی جانب سے پاکستان میں بنیادی سہولیات کے نظام‘ توانائی اور قومی پیداوار جیسے شعبوں میں ’اٹھاون ارب ڈالر‘ کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ سی پیک کے صورت پاکستان میں سرمایہ کاری کا وعدہ عین اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستان کے دیگر بین الاقوامی عطیہ دہندگان دوست سرمایہ کاری کرنے میں تذبذب کا شکار تھے اور پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔پاکستان کے لئے ’سی پیک‘ کی اہمیت و صلاحیت کا موازنہ یورپ کے مارشل پلان سے کیا جاتا ہے۔ اِس منصوبے کے نمایاں خصوصیات میں سال دوہزارپندرہ سے دوہزار تیس کے درمیان پاکستانیوں کے لئے 23 لاکھ ملازمتوں کا پیدا ہونا شامل ہے۔ اِسی طرح پاکستان کی کل پیداوار میں دو سے ڈھائی پوائنٹس اضافہ بھی ہوگا جسے معیشت پر تبدیلی کے اثرات کا محرک سمجھا جاتا تھا۔ اب تک‘ گزشتہ دس سالوں میں پچیس اعشاریہ چار ارب ڈالر کی براہ راست چینی سرمایہ کاری مختلف شعبوں جیسا کہ ٹرانسپورٹ‘ توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں ہو چکی ہے ۔ چین نے تیس ارب چینی یوآن کے قرضوں کی تقسیم اور کرنسی کے تبادلے کا انتظام قائم کرکے پاکستان کے معاشی استحکام کے لئے بھی گراں قدر مدد فراہم کی ہے۔ اس انمول امداد نے پاکستان کی مالی صحت کو بہتر بنایا‘ پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضوں کی واپسی اور اُن پر سود کی ادائیگی کی صلاحیت بہتر ہوئی۔ پاک چین ترقیاتی تعاون (سی پیک کی صورت شراکت داری) نے پاکستان کو اپنے تجارتی معاملات متنوع بنانے‘ ڈالر پر معاشی انحصار کم کرنے اور اِسے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے قابل بنایا۔ سڑکوں کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے سی پیک نے دیہی اور شہری منظرنامے کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے‘ جس سے قومی ہم آہنگی کو فروغ ملا ہے۔ ان اہم سڑکوں پر 9 خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) قائم کئے گئے ہیں جن کے ذریعے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری آئے گی۔ کورونا وبا کی وجہ سے جو معاشی سست روی آئی ہے اُسے ختم کرنے میں اِن ایس ای زیڈز کا خاص کردار ہے اور اِس سے معاشی بحالی عملاً ممکن ہو جائے گی۔ سی پیک کے تحت نامزد 9 میں سے 4 ایس ای زیڈز تیاری کے آخری مرحلے میں ہیں اور سی پیک کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے ساتھ ہی موٹرویز کے نیٹ ورک کے ساتھ اُبھرنے والے یہ ابتدائی ایس ای زیڈز سال دوہزارپچیس تک کام شروع کردیں گے جبکہ بقیہ پانچ ایس ای زیڈز سال دوہزارتیس تک مکمل ہو کر فعال (آپریشنل) ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگاتے ہوئے سی پیک تبدیلی کا زبردست محرک ثابت ہو رہا ہے جس میں ترقیاتی مواقع پنہاں ہیں۔ سی پیک کے اثرات صرف پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے اندر ہی بلکہ ہمسایہ ممالک تک پھیلے ہوئے ہیں اور اِس سے علاقائی انضمام و تجارت کو بھی فروغ ملے گا۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں قدم رکھتے ہوئے چین نے پاکستان کی سماجی شعبے کی ترقی کو بھی آگے بڑھایا ہے اور اِس مقصد کے لئے ایک ارب ڈالر کی گرانٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے ہوتے ہوئے یہ روابط اِس بات کا ثبوت ہیں کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان روابط فروغ پا رہے ہیں اور ایک ہزار سے زائد پاکستانی طالب علم چین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ’سی پیک‘ کے دوسرے مرحلے میں اضافی منصوبے بھی مکمل ہوں گے۔ یہ حوصلہ افزا پیش رفت سی پیک راہداری کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے میں چین اور پاکستان دونوں کے غیر متزلزل عزم کو ظاہر کر رہی ہے جس سے نہ صرف علاقائی رابطوں کو تقویت ملتی ہے بلکہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تجارت کے راستے کھل رہے ہیں۔ سی پیک کا مستقبل امید افزا دکھائی دیتا ہے‘ جس سے بڑے پیمانے پر معاشی ترقی و تعاون جیسے اہداف حاصل ہو رہے ہیں۔ اطمینان بخش بات ہے کہ چین اور پاکستان نے سی پیک کو درپیش چیلنجوں سے مو¿ثر طریقے سے نمٹنے کے لئے بھی الگ سے حکمت عملی وضع کی ہے اور سی پیک کو لاحق خطرات پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے۔ جغرافیائی سیاست میں تبدیلیوں کے دور میں سی پیک نہ صرف رابطے کا ذریعہ ہے بلکہ شراکت داری کا نمونہ بھی ہے جو مشترکہ خوشحالی اور ترقی کے وسیع امکانات رکھتا ہے۔ جیسا کہ سی پیک دوسرے مرحلے میں آگے بڑھ رہا ہے‘ پاکستان کی معاشی بحالی ہو رہی ہے اور پاکستان چین کی شراکت سے ترقیاتی افق پر موجود مواقعوں سے فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ ابوالحسن امام)