بین الاقوامی جامعہ: انقلابی تصور

جنوبی کوریا کے گریٹر سیو¿ل میں انچیون جامعہ ’گلوبل کیمپس‘ ہے جو دنیا کی چند معروف ترین یونیورسٹیوں کے غیر ملکی کیمپسوں کی میزبانی کرنے والے عالمی تعلیمی مرکز کے طور پر شہرت رکھتا ہے۔ حال ہی میں کئے گئے اِس جامعہ کے دورے کے موقع پر راقم الحروف کو چار بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے صدور سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ اِن میں تین امریکی اور ایک بیلجیئم (گینٹ یونیورسٹی) شامل ہیں جبکہ بتایا گیا ہے کہ جلد ہی مزید پانچ سے چھ یونیورسٹیاں بھی اِس عالمی جامعہ کا حصہ بن جائیں گی۔ راقم الحروف کو دبئی انٹرنیشنل اکیڈمک سٹی اور دبئی نالج پارک فری ٹریڈ زونز میں یونیورسٹیوں کا دورہ کرنے کا بھی موقع ملا۔ ان تجربات کے ساتھ کچھ پاکستانی یونیورسٹیوں کی جانب سے اپنے پروگراموں اور کیمپس کلچر کو بین الاقوامی بنانے کی خواہش نے بیرون ملک کیمپس میں راقم الحروف کی دلچسپی میں اضافہ کیا۔گینٹ یونیورسٹی (جنوبی کوریا کیمپس) کے صدر اپنے کیمپس کو بیلجیئم‘ جنوبی کوریا اور طویل مدت میں دونوں خطوں کے درمیان ایک پل سمجھتے ہیں۔ یہ عمل ’انٹرنیشنلائزیشن‘ کہلاتا ہے جس میں یونیورسٹیوں کو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ اپنے ہاں درس و تدریسی عمل کو کو بہتر بناتی ہیں۔ بین الاقوامیت مختلف ممالک اور پس منظر سے طلبہ اور فیکلٹی کو اکٹھا کرتی ہے‘ جس سے سیکھنے کا ایک متنوع ماحول پیدا ہوتا ہے۔ مختلف ثقافتوں‘ زبانوں اور نقطہ نظر سے یہ رابطہ عالمی بیداری‘ بین الثقافتی تفہیم اور رواداری کو فروغ دیتا ہے جو طلبہ کو باہم مربوط دنیا میں آگے بڑھنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ یہ سیکھنے کے بہتر مواقع‘ زبان کی مہارت اور مواصلات‘ زیادہ سے زیادہ روزگار اور کیریئر کے مواقع‘ تبادلے اور نقل و حرکت کے پروگرام‘ ایک عالمی سابق طالب علم نیٹ ورک‘ تحقیقی تعاون‘ جدت طرازی اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے بہتر پوزیشننگ پیش کرتا ہے۔ بین الاقوامیت کے لئے دو نقطہ ہائے نظر ہیں۔ پہلا یہ کہ دنیا بھر سے طلبہ کو ایک جگہ (کیمپس) لایا جاتا ہے۔ اس میں داخلوں کے عمل کو اپنانا‘ درخواست دہندگان کی تعلیمی قابلیت کی برابری کا تعین کرنے کا طریقہ کار‘ طالب علموں کے لئے رہائش کی تلاش میں مدد‘ آن بورڈنگ کے عمل کو بہتر بنانا‘ طلبہ کے ویزا درخواستوں میں سہولیات جیسے امور شامل ہوتے ہیں۔ دوسرا طریقہ اِس کے برعکس (الٹ) ہے۔ کراس بارڈر ایجوکیشن ریسرچ ٹیم کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق اِس وقت دنیا بھر میں بیرون ملک برانچ کیمپس کی تعداد 333 ہے‘ جو 83 ممالک میں قائم ہیں اور سب سے زیادہ بیرون ملک برانچ کیمپس کی میزبانی کرنے والے سرفہرست پانچ ممالک میں چین (47کیمپس)‘ متحدہ عرب امارات (30)‘ سنگاپور (16)‘ ملائیشیا (15) اور قطر (11) شامل ہیں۔ بیرون ملک برانچ کیمپس کے سب سے بڑے ’برآمد کنندگان‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ (84 کیمپس)‘ برطانیہ (46)‘ روس (39)‘ فرانس (38) اور آسٹریلیا (20) کیمپس شامل ہیں۔ دبئی کی نالج اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (کے ایچ ڈی اے) کا کہنا ہے کہ صرف دبئی میں بین الاقوامی یونیورسٹیوں کی تعداد چالیس ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران‘ متعدد پہلے درجے کی یونیورسٹیوں نے متحدہ عرب امارات میں کامیابی سے برانچ کیمپس قائم کئے۔ امریکہ سے ان میں نیو یارک یونیورسٹی ابوظہبی‘ روچیسٹر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی دبئی اور ہلٹ انٹرنیشنل بزنس سکول دبئی شامل ہیں۔ برطانیہ سے برمنگھم یونیورسٹی دبئی‘ یونیورسٹی آف مانچسٹر ورلڈ وائیڈ‘ سٹی یونیورسٹی لندن‘ لندن بزنس سکول‘ اسٹریتھ کلائڈ بزنس اسکول یو اے ای‘ مڈل سیکس یونیورسٹی دبئی‘ بریڈ فورڈ یونیورسٹی‘ ہیریوٹ واٹ یونیورسٹی اور ڈی مونٹفورٹ یونیورسٹی۔ آسٹریلیا سے‘ دبئی میں وولونگونگ یونیورسٹی‘ مرڈوک یونیورسٹی دبئی اور کرٹن یونیورسٹی شامل ہیں۔ سی برٹ کے اعداد و شمار کے مطابق دبئی میں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اِس وقت کسی بھی پاکستانی یونیورسٹی کا واحد بیرون ملک برانچ کیمپس ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میں ’انٹرنیشنلائزیشن‘ کے بارے میں بہت کم سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور یہ سہولیات بھی صرف پاکستانی تارکین وطن اور تارکین وطن کے بچوں کو داخلہ دینے تک محدود ہیں۔ بیرون ملک کیمپسوں کو برانچ کیمپس آپریشنز مقامی سیاق و سباق کے مطابق چلانا ہوتا ہے جس کے لئے انتظامات کو ثقافت کے مطابق ڈھالنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں ہوم کیمپس کے تعلیمی کلچر کے مثبت پہلوو¿ں کو برقرار رکھنا چاہئے۔ غیر ملکی جامعات مختلف ثقافتی اصولوں‘ تعلیمی نظاموں اور قانونی و ریگولیٹری ضوابطوں (فریم ورک) کا مجموعہ ہوتے ہیں جنہیں اپنانے کے لئے مقامی جامعات کو زبان کی رکاوٹوں‘ مقامی رسم و رواج اور انتظامی پیچیدگیوں جیسے مسائل حل کرنا پڑتے ہیں۔ طلبہ کے لئے ویزا‘ اکیڈمک ایکریڈیٹیشن اور لیبر سمیت مقامی قوانین اور قواعد و ضوابط کی تعمیل بھی ضروری ہوتی ہے جو کئی صورتوں میں چیلنجنگ اور وقت طلب ہوسکتا ہے۔ موجودہ ماحول میں‘ جہاں زیادہ تر سرکاری یونیورسٹیاں اپنے اخراجات پورا کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں‘ برانچ کیمپس کھولنا دور کے خواب کی طرح لگ سکتا ہے تاہم نجی اور کچھ سرکاری یونیورسٹیوں جو مالی طور پر مستحکم ہیں تعلیم کے اِس نئے تصور سے فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔ بنیادی ضرورت تعلیم اور تحقیق کو آگے بڑھانا ہے اور اِس سلسلے میں بین الاقوامیت کو اپناکر یونیورسٹیاں عالمی سطح پر علم کے تبادلے‘ سرحد پار تعاون‘ ثقافت اور سفارتکاری سے فائدہ اُٹھا سکتی ہیں اور عالمی تعلیم کا یہ تصور مستقبل کے رہنماو¿ں اور معماروں کی ترقی میں معنی خیز کردار ادا کر سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ ابوالحسن امام)