امریکی عہدیدارچین کے دوروں پر

بگڑتے ہوئے تعلقات اور تلخ واقعات کے درمیان، اعلی سطح کے امریکی حکام کے چین کے دوروں کی ہلچل نمایاں رہی ہے۔ یہ ایک قابل عمل تعلقات کی طرف امید کے ساتھ تعاون کو بحال کرنے کی ایک جرات مندانہ کوشش ہے۔ امریکی قیادت کی بحالی اور طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے بائیڈن کے نئے نظریے کے تناظر میں یہ کوششیں کس حد تک کامیاب ہوں گی، یہ وقت کا امتحان ہے۔وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا چین کا دورہ بائیڈن کے صدر بننے کے بعد سے گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے اعلی سطح کا سرکاری دورہ تھا اس کے بعد وزیر خزانہ جینٹ ییلن اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں امریکی خصوصی ایلچی جان کیری آئے۔ یہ دورے خاص طور پر بڑھتے ہوئے تنا کے تناظر میں انتہائی واضح ہو گئے ہیں۔بلنکن ایک ایسے وقت میں تعاون کے بارے میں بات کرنے کے لئے جون میں بیجنگ گئے تھے جب تعلقات تجارتی تنازعات، سفارتی اور فوجی تنا کی وجہ سے کشیدہ ہیں۔ انہوں نے سفارت کاری کی اہمیت اور غلط فہمی کے خطرے کو کم کرنے پر زور دیا یہ واضح حوالہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے چینی جاسوس غبارے کو گولی مارنے کی ماضی کی غلط مہم جوئی، اور تائیوان پر بڑھتے ہوئے اختلافات سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے۔ان کے دورے کے کئی مقاصد تھے۔ سب سے پہلے، اس کا مقصد ٹھنڈے تعلقات کو دوبارہ زندہ کرنا اور نومبر میں Xi-Biden کی ممکنہ ملاقات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا تھا، جب امریکہ سان فرانسسکو میں APEC رہنماں کی میزبانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ دونوں رہنما باہمی اعتماد کے ساتھ داخل ہو سکیں۔تاکہ وہ فضاءپھر سامنے آئے جب بائیڈن اور جن پنگ نے مقابلہ کو ذمہ داری سے سنبھالنے کی بات کی۔ یہ بدقسمتی سے قلیل المدتی معاملہ ثابت ہوا۔دوسرا، یہ ملاقات یورپی یونین کے سامعین کے لیے اہم تھی، جہاں یوکرین کی جنگ میں روس کے لیے چین کی حمایت تعلقات کو کشیدہ کر رہی ہے۔ چین متاثر کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے اس موقع کا خیرمقدم کرے گا کہ یورپی یونین چین کے بارے میں امریکی پابندیوں کی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔تیسرا، اس نے امریکہ کے سیاسی
 بیانیے کو تقویت بخشی کہ بائیڈن چین کے ساتھ تعلقات کو سنبھالنے میں کامیاب ہے جبکہ ہند بحرالکاہل میں اپنے اثر و رسوخ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ سب کی نظریں مستقبل پر ہیں کہ آیا تناﺅ میں پگھلا ﺅبرقرار رہے گا۔امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن کے اس ماہ کے شروع میں چین کے چار روزہ دورے کا مقصد بھی پل بنانا تھا۔ اس نے "مواصلات کے ایک لچکدار اور نتیجہ خیز چینل" کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ معیشتوں کے دوغلے پن کے غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے، انہوں نے امریکہ اور چین کے تعلقات کو عظیم طاقت کے تنازعہ کے تناظر میں دیکھنے کی نفی کی۔چین کو اہم سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی کی فروخت پر امریکہ کی طرف سے غیر منصفانہ اقتصادی طریقوں اور سخت برآمدی کنٹرول کے سنگین الزامات کے پس منظر میں مفاہمت کی روح بالکل واضح ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ چین کو AI اور ملٹری ٹیکنالوجیز میں برتری حاصل ہو جو اسے مستقبل کے تنازع میں امریکہ کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے سکے۔ نئے عزم کی روشنی میں دونوں ممالک اقتصادی دشمنی کو کس حد تک ذمہ داری سے سنبھالتے ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔جان کیری اس سال چین کا دورہ کرنے والے تیسرے عہدیدار تھے ‘ایک ہفتہ قبل‘ موسمیاتی مذاکرات کے لیے ایک مستحکم تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے، حالانکہ اس دائرے میں کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے اور دونوں ممالک کے پاس پیرس آب و ہوا سمیت عالمی ماحولیاتی مذاکرات کو فروغ دینے کی تاریخ ہے۔ 2015 میں معاہدہ ہوا جب حکومتوں نے عالمی درجہ حرارت میں صنعتی دور میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے پر اتفاق کیا تاہم وسیع تر کشیدگی کے سلسلے نے جاری موسمیاتی بات چیت کو متاثر کیا، جس میں چینی سامان اور سولر پینلز پر
 ٹرمپ دور کے ٹیرف اور بائیڈن کی برآمدی پابندیاں اور جبری مشقت کے خدشات پر سنکیانگ سے درآمدات کو روکنا شامل ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی کے گزشتہ سال تائیوان کے دورے کے بعد ایک جمہوری حکومت والے جزیرے پر جس کا دعوی چین اپنی سرزمین کے حصے کے طور پر کرتا ہے بیجنگ نے اعلان کیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر بات چیت کو روک دے گا۔ کیری کے دورے نے ایک تنا ﺅکے پس منظر میں موسمیاتی تعاون کو بحال کرنے کی کوشش کی۔یہ دورے ٹرمپ انتظامیہ کے دور کے بالکل برعکس ہیں جب ذاتی دورے نہیں ہوتے تھے اور زیادہ تر گفتگو سوشل میڈیا پر ہوتی تھی۔ یہ دورے امریکہ کے لیے اس بات کو تقویت دینے کا ایک طریقہ ہیں کہ بائیڈن کی پالیسی چین کے خلاف ٹرمپ کی مخالفانہ پالیسی کا تسلسل نہیں ہے۔ایسے ہی ایک اہم موڑ پر سابق امریکی وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کا رواں ماہ بیجنگ کا دورہ بھی کم علامتی نہیں تھا‘اپنے دورے سے قبل’دی اکانومسٹ‘کے ساتھ بات چیت میں، انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین اور امریکہ "تصادم کی راہ" پر گامزن ہیں کیونکہ "دونوں فریقوں نے خود کو باور کرایا ہے کہ دوسرے ایک سٹریٹجک خطرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔کیونکہ دونوں کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور تائیوان پر طاقت کے اظہار کا ارادہ بھی۔وہ سفارت کاری کے اس کھوئے ہوئے جذبے کو تقویت دینے‘امریکہ اور چین کے تعلقات کو مثبت سمت میں لے جانے اور تنازعات کو روکنے کیلئے چین آئے تھے۔چین اور امریکہ تکنیکی بالادستی اور اقتصادی غلبہ کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں۔ بیجنگ کا خیال ہے کہ امریکہ اسے ہر قیمت پر نیچے رکھے گا۔ واشنگٹن اس بات پر بضد ہے کہ چین امریکہ کی جگہ دنیا کی سرکردہ طاقت بننا چاہتا ہے۔چین کے بڑھتے ہوئے عزائم اور بالادستی کے امریکی جوش کا فطری ردعمل مقابلہ کو ذمہ داری سے سنبھالنا اور تصادم سے بچنا ہے‘ دوسرا یہ ہے کہ دونوں کے درمیان مستقل اور بلا تعطل بات چیت اور متواتر تبادلے ہوں‘ آخری مرحلہ تجارت، آب و ہوا اور مصنوعی ذہانت پر مبنی عالمی قوانین کی روح کو زندہ کرناہے۔( بشکریہ دی نیوز، تحریر:بیلم رمضان،ترجمہ: ابوالحسن امام)