مغربی ممالک اور عالمی معیشتوں کا اتحاد 

سال دوہزاراٹھارہ میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے علاقائی سفارتکاری میں قائدانہ کردار ادا کرنے اور امن و سلامتی کے اہم مسائل سے نمٹنے کے لئے کثیر الجہتی تعاون کو فروغ دینے میں کردار ادا کرنے پر ’شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)‘ کے کردار کو سراہا تھا۔ انہوں نے یوریشین بلاک کو دہشت گردی‘ پرتشدد انتہا پسندی اور منشیات کی سمگلنگ کا مقابلہ کرنے میں اہم شراکت دار قرار دیا۔ دنیا کی تقریباً نصف آبادی اور بالٹک سے بحرالکاہل تک ساٹھ فیصد جغرافیائی وسعت رکھنے والے ممالک شنگھائی تعاون تنظیم سے جڑے ہیں۔ تنظیم کے حالیہ سالانہ اجلاس میں چین‘ روس‘ پاکستان‘ بھارت اور چار وسطی ایشیائی ممالک قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ازبکستان کے رہنماو¿ں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے فروغ کی ضرورت محسوس کی اور ایک ایسی پالیسی پر عمل درآمد کرنے پر اتفاق کیا جس میں ترقی کے ساتھ روایتی اور غیرروایتی سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے اقدامات بھی شامل ہونے چاہئیں۔ نیٹو‘ جی سیون‘ کواڈ اور یوکس جیسے دیگر فطری طور پر ’ہم خیال‘ اتحادوں کے بالکل برعکس شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) زیادہ تر کم طاقتور ممالک کا متنوع مجموعہ ہے۔ دنیا کو اِن روایتی حریف ممالک کے درمیان اقتصادی و سلامتی کے مسائل سے متعلق مواصلات کے تبادلے کے لئے نئے لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت کم کرنے کے لئے اسے اکثر منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ بیان بازی رکن ممالک کے دانشوروں کے درمیان علاقائی سلامتی اور خوشحالی کے لئے اہم مسائل پر بات چیت کا نکتہ¿ آغاز بھی ہے مثال کے طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے ’سربراہ اجلاس 2023ئ‘ کے بارے میں ایک حالیہ ویبینار میں چین‘ پاکستان‘ بھارت‘ تاجکستان‘ اُزبکستان‘ قازقستان اور روس کے ماہرین تعلیم نے مختلف شعبوں میں اپنے ممالک کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کرائی اور موسمیاتی تبدیلی‘ انتہا پسندی اور تکنیکی ترقی جیسے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کے لئے ’شنگھائی سپرٹ‘ کے عنوان سے تعاون کے فروغ کی اہمیت پر زور دیا۔ تنظیم کے رکن ممالک علاقائی سلامتی کو مضبوط بنانے اور معاشی خوشحالی کو فروغ دینے پر اتفاق کرتے ہیں۔ ایران کی شنگھائی تعاون تنظیم میں رکنیت و شمولیت اور بیلاروس کی جانب سے سربراہ اجلاس میں ذمہ داریوں کی یادداشت پر دستخط کے ساتھ بحرین کی بطور مذاکراتی شراکت داری سے ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی ریاستوں کے اِس اہم کنسورشیم میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور اب یہ تنظیم پورے ایشیا کا احاطہ کرتے ہوئے یورپی ممالک کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے جبکہ بہت جلد افریقی و لاطینی امریکی اور کیریبین ممالک کو بھی اپنی جانب راغب کر سکتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم پہلے ہی سے ترقی پذیر ممالک کا پلیٹ فارم ہے جو اُبھرتی ہوئی دنیا میں اپنی طاقت دکھانا چاہتے ہیں۔ سال دوہزاربائیس تک ایران‘ بیلاروس‘ افغانستان اور منگولیا اِس کی مبصر ریاستیں تھیں۔ آرمینیا‘ آذربائیجان‘ کمبوڈیا‘ نیپال‘ سری لنکا اور ترکی نیٹو تنظیم کے اہم رکن ممالک ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے گزشتہ سال سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کے سربراہ اجلاس میں شرکت بھی کی تھی جبکہ کویت‘ مالدیپ‘ برما (میانمار) اور متحدہ عرب امارات نے مئی میں یادداشتوں پر دستخط کئے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے مذاکراتی شراکت داروں کا درجہ حاصل کیا۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید النہیان نے ایک ایسی تنظیم میں شمولیت پر مسرت کا اظہار کیا جس کا عالمی اثر و رسوخ اور اہمیت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس سے قبل مارچ میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی سربراہی میں سعودی کابینہ نے شنگھائی تعاون تنظیم میں بطور مذاکراتی شراکت دار شمولیت کے فیصلے کی منظوری دی تھی۔ مصر‘ یوکرین اور ویت نام سمیت تقریبا ایک درجن ممالک‘ جن میں سے سبھی نے مبصر کی حیثیت تنظیم میں شرکت کے لئے درخواست دی ہے‘ بین الاقوامی تعاون کے ذریعے عالمی معیشت اور سلامتی میں استحکام لانے میں مو¿ثر اور متاثر کن کردار ادا کرنے کے لئے مضبوط سیاسی‘ اقتصادی اور سیکورٹی اتحاد کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون پر بھی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ ادارے کے خارجہ تعلقات کے قانونی فریم ورک میں آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ‘ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن‘ اجتماعی سلامتی معاہدے کی تنظیم‘ اقتصادی تعاون تنظیم‘ ایشیا میں ترقیاتی تعاون و اعتماد سازی جیسے اقدامات پر کانفرنس اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے ساتھ تعاون پر زور دیا گیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور اقوام متحدہ نے تعلیم‘ سائنس اور ثقافت‘ سیاحت‘ ہجرت‘ منشیات و جرائم‘ ایشیا بحرالکاہل کے لئے سماجی و اقتصادی اور انسداد دہشت گردی جیسے شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم 2005ءسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بطور مبصر شامل ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران‘ اِس تنظیم نے ترقی‘ بین الاقوامی تعلقات کے جمہوری ڈھانچے کی تعمیر اور عالمی تجارت کو یکطرفہ تحفظ پسند اقدامات سے روکنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ آبادی والے علاقائی تعاون کے ادارے کی حیثیت سے اہمیت رکھتی ہے جس کے سربراہان مملکت فیصلہ سازی کا اعلیٰ ترین ادارہ ہیں اور یہ کسی ملک کے مفادات و خصوصیت کا اعادہ کرتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اہداف میں باہمی اعتماد اور اچھے ہمسایہ تعلقات کو مضبوط بنانا‘ سیاست‘ تجارت‘ موسمیاتی تبدیلی‘ معیشت‘ سائنس و ٹیکنالوجی‘ ثقافت‘ تعلیم‘ توانائی‘ نقل و حمل اور سیاحت جیسے شعبوں میں تعاون شامل ہے جو علاقائی ترقی اور خوشحالی کے فروغ کا مشترکہ فورم ہے۔ (بشکریہ دی ٹریبیون۔ تحریر اظہر عظیم۔ ترجمہ ابوالحسن امام)