امریکہ انتخابی مفادات 

امریکہ میں انتخابات کے موقع پر ایک مرتبہ پھر سیاسی منظر نامے میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور دو بڑی سیاسی جماعتیںانتخابات سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتی ہیں‘ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تیسری فرد جرم عائد ہونے کا انتظار ہے جبکہ امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر کیون میک کارتھی نے بھی مالی بے ضابطگیوں کے الزامات پر امریکی صدر بائیڈن کے مواخذے کے امکان کا اظہار کیا ہے جسے تجزیہ کار خطرے کی گھنٹی قرار دے رہے ہیں۔ قانونی الجھنوں کا یہ طوفان آنے والے دنوں میں امریکی سیاست پر حاوی ہوگا اگرچہ میک کارتھی نے ابھی تک سال دوہزار چوبیس کے ری پبلکن صدارتی امیدوار کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی امیدواری کی کھل کر حمایت نہیں کی ہے لیکن مبصرین اِن کے حالیہ اقدامات میں درپردہ حربوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کرنے کے لئے بڑھتے ہوئے دباو¿ کے درمیان میک کارتھی نے بظاہر سیاسی ہواو¿ں کا اندازہ لگاتے ہوئے اور پارٹی کے وفاداروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس موضوع کو بڑی مہارت سے اٹھایا ہے‘ آئندہ یعنی دوہزارچوبیس کے صدارتی انتخابات سے متعلق قیاس آرائیاں جاری ہیں کیونکہ ری پبلکن قیادت کے بارے میں ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ”ہم نے صرف وہاں پیروی کی ہے جہاں معلومات ہمیں لے گئی ہیں لیکن یہ مواخذے کی سطحی تحقیقات ہیں جو کانگریس کو مزید معلومات حاصل کرنے کےلئے طاقت فراہم کر رہی ہیں۔“ یہ بات میک کارتھی نے فاکس نیوز کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں کہی۔ میک کارتھی کے اِن مختصر ریمارکس غیر معمولی مذاق نہیں۔ میک کارتھی نے آئی آر ایس کے دو وسل بلورز کے اکاو¿نٹس کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہنٹر بائیڈن کی مبینہ ٹیکس خلاف ورزیوں کی تحقیقات میں سست روی کا انکشاف ہوا ہے۔ میک کارتھی نے ایوان نمائندگان کی ’جی او پی‘ تحقیقات کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی ہے جس میں مبینہ طور پر بائیڈن خاندان اور ساتھیوں کو لاکھوں کا فائدہ پہنچانے کے لئے شیل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی فنڈز کے استعمال کا انکشاف ہوا تھا‘ سیاسی میدان میں ان الزامات کے دوبارہ سامنے آنے کےساتھ ہی بائیڈن خاندان سے متعلق تنازعات نے نئی شکل اختیار کر لی ہے‘ مذکورہ انٹرویو میں میک کارتھی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مواخذے کی تحقیقات کانگریس کو سچائی کا پتہ لگانے کے ذرائع فراہم کرسکتی ہیں حالانکہ انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کی تحقیقات میں ابھی تک کسی بھی بدانتظامی کا ثبوت نہیں ملا۔ اس طرح کی تحقیقات کا آغاز ممکنہ طور پر مواخذے کی دفعات پیش کرنےکی طرف ابتدائی پیش رفت کی نشاندہی کرےگا‘ تحقیقات کا دورانیہ ایوان کی صوابدید پر ہے‘ جس سے ممکنہ طور پر صدارتی مہم کا جوش و خروش بڑھ سکتا ہے۔ یقینی طور پر امریکی سیاست میں ایک اہم موڑ کا انتظار ہے‘ جس کے مضمرات سیاسی دائرے سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ انٹرویو کے دوران میک کارتھی نے واضح طور پر ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ وہ یک جہتی کے اظہار کے طور پر ٹرمپ کے دوہرے مواخذے کو خارج کرنے کےلئے ایوان نمائندگان کے ووٹوں کی تلاش کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بائیڈن کے خلاف مو¿اخذے کی تحقیقات شروع کرنے کےلئے کسی بھی ٹائم ٹیبل کی وضاحت کرنے سے گریز کیا اور اس بات پر زور دیا کہ انہوں نے اس معاملے پر ٹرمپ کے ساتھ بات چیت نہیں کی۔ مزید برآں‘ جب اُن پر دباو¿ ڈالا گیا‘ تو انہوں نے کسی بھی ممکنہ صدارتی توثیق کا انکشاف نہ کرنے کا انتخاب کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ میک کارتھی اپنے کارڈز کو قریب رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ توقع تھی‘ وائٹ ہاو¿س نے میک کارتھی کے تبصرے پر جارحانہ ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ وائٹ ہاو¿س کے ترجمان ایان سیمس نے میک کارتھی کے تبصرے کے جواب میں کہا کہ ”اصل مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے جو امریکی چاہتے ہیں کہ ہم افراط زر (مہنگائی) کو کم کرنے یا ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے جیسے مسائل کو حل کریں‘ ایوان نمائندگان کی ’جی او پی‘ اسی چیز کو ترجیح دینا چاہتی ہے۔ اِس صورتحال میں بظاہر وائٹ ہاو¿س وہی ہتھکنڈے آزما رہا ہے جس سے امریکی صدر بائیڈن کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔کانگریس کی راہداریوں میں صدر بائیڈن اور ان کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کو نشانہ بنانے والی ری پبلکن قیادت چاہتی ہے کہ تحقیقات میں اضافہ کیا جائے۔ بائیڈن خاندان کے مالی معاملات پر گہری توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایوان نمائندگان کے ری پبلکنز اراکین خاص طور پر اُن ادائیگیوں کی چھان بین کر رہے ہیں جو بائیڈن کو یوکرین کی توانائی کمپنی برسما سے موصول ہوئی تھیں‘ جوں جوں یہ تحقیقات آگے بڑھیں گی یہ تیزی سے بدلتے پیچیدہ سیاسی خدوخال کو ترتیب دیں گی‘ سیاسی کشمکش کے درمیان ری پبلیکن پارٹی ایک ایسے بیانیے پر قائم ہے جو ٹرمپ کے مواخذے کے پہلے بیانیے سے جڑا ہوا ہے اور یہ کہانی یوکرین کی برسما لین کے گرد گھومتی ہے۔ ایف بی آئی کے ایک نامعلوم مخبر نے الزام عائد کیا ہے کہ سال دوہزارپندرہ اور دوہزارسولہ میں برسما کے عہدیداروں نے بائیڈن خاندان کو پانچ لاکھ ڈالر کی پیشکش کی جس کے بدلے میں انہوں نے یوکرین کے ایک پراسیکیوٹر کو بے دخل کیا گیا‘ ٹرمپ کے اٹارنی جنرل ولیم بار کی سربراہی میں محکمہ انصاف نے سال دوہزاربیس میں مخبر کے اِن دعوو¿ں سے متعلق تحقیقات کا آغاز کیا تھا تاہم آٹھ ماہ کی تحقیقات کے بعد‘ آخر کار انکوائری روک دی گئی‘ جس کی وجہ سے بے ضابطگی کے کسی بھی الزام کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔ کانگریس کے اندر ٹرمپ کے کٹر وفادار سپیکر میک کارتھی پر کافی دباو¿ ڈال رہے ہیں‘ سب سے پہلے‘ صدر جو بائیڈن کے مواخذے کی جارحانہ کوشش کا مقصد جاری تحقیقات اور ٹرمپ پر ممکنہ فرد جرم سے توجہ ہٹانا ہے‘ دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کے اقدام سے بائیڈن اور ڈیموکریٹس کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے‘ جو دوہزارتئیس کے صدارتی انتخابات سے نااہل قرار دیئے جانے کی صورت قابل عمل متبادل سوال سے نبرد آزما ہیں‘ اِس صورتحال میں سیاسی خطرات بہت زیادہ ہیں کیونکہ بدلتے ہوئے منظر نامے میں غیر یقینی کی صورتحال اور اہم فیصلے سامنے آ رہے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ ابوالحسن امام)