امریکی انتخابات 2024ء

اگلے امریکی صدارتی انتخابات میں پندرہ ماہ باقی ہیں لیکن سیاسی سرگرمیاں پہلے ہی زور پکڑ چکی ہیں۔ صدر بائیڈن نے دوبارہ انتخابات کے لئے اپنی امیدواری کا اعلان کر دیا ہے۔ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے کم از کم چودہ امیدوار میدان میں ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کی بنیاد پر ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ ہم عصر اُمیدواروں میں آگے ہیں۔ امکان ہے کہ سال دوہزارچوبیس میں ہونے والے صدارتی انتخابات دوہزاربیس کا تسلسل ہوں گے۔ زیادہ تر امریکی اس امکان کے بارے میں زیادہ پرجوش نہیں اگرچہ بائیڈن نے کانگریس میں معمولی اکثریت کے باوجود اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کیا ہے لیکن بہت سے ڈیموکریٹس بھی اس عمر رسیدہ رہنما کے دوبارہ انتخاب لڑنے کے بارے میں پرجوش نہیں۔ وہ اپنے آپ کو چاق و چوبند اور کام کے لئے تیار سمجھتے ہیں لیکن وہ کمزور ہیں اور عمر کی وجہ سے اُن سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ بائیڈن کی عمر بیاسی سال ہے اور اگر وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو ان کی عمر چھیاسی سال ہو جائے گی۔ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کو ری پبلکنز کی اکثریت یعنی نام نہاد ری پبلکن کی پرجوش حمایت حاصل ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے قانونی حالات کتنے ہی مشکل ہیں لیکن وہ بظاہر درجنوں الزامات کے بارے میں کم فکر مند ہیں۔ ٹرمپ پر چھ جنوری دوہزاراکیس کو تشدد بھڑکانے کا الزام لگ سکتا ہے جب انہوں نے یو ایس کیپیٹل پر حملے کے لئے اپنے حامیوں کو اُکسایا تھا۔ دنیا نے ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کانگریس ہال پر حملے کا افسوسناک منظر دیکھا‘ جس کے نتیجے میں متعدد سکیورٹی اہلکار ہلاک بھی ہوئے۔ ٹرمپ کو ریاست جارجیا میں انتخابات کی گنتی میں مداخلت کے الزام کا بھی سامنا ہے جس کی اُن پر فرد جرم عائد ہونے کا امکان ہے جہاں انہوں نے چیف الیکشن آفیسر کو فون کیا اور ان سے کہا کہ وہ ان کے حق میں گیارہ ہزار ووٹ حاصل کریں۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں کا ہجوم یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں خود کو کس طرح بہترین انداز میں پیش کیا جائے۔ وہ ری پبلکن بیس کی حمایت کھونے کے خوف سے ٹرمپ پر کھل کر تنقید کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ درحقیقت وہ کہہ رہے ہیں کہ سابق صدر نے کچھ بھی غلط نہیں کیا لیکن براہ مہربانی اُس کے بجائے مجھے ووٹ دیں۔ ری پبلکنز کو اس مسئلے کا بھی سامنا ہے کہ امیروں کے لئے ٹیکس کٹوتی کے علاو¿ہ انہوں نے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ دوہزار سولہ میں ٹرمپ نے امیگریشن کے خلاف بیان بازی کرتے ہوئے صدارت تک رسائی حاصل کی تھی۔ تارکین وطن کے خلاف اُن کے کامیاب نعرے کو اٹھاتے ہوئے ری پبلکنز نے بھی ثقافتی مسائل کو اٹھایا ہے۔ ری پبلکن صدارتی امیدوار اور فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹس نے حال ہی میں اپنی ریاست میں تاریخ کے نظر ثانی شدہ نصاب کی رونمائی کی‘ جس میں طالب علموں کو یہ سکھایا جائے گا کہ سابق غلاموں نے غلامی کے دوران حاصل کردہ مہارتوں سے کس طرح فائدہ اٹھایا۔ کچھ ری پبلکن امیدوار ایسے بھی ہیں جن میں نیو جرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی بھی شامل ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران ان کے اقدامات پر کھلے عام تنقید کرتے تھے اور ان کی تنقید کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے‘ بہت سے اعتدال پسند حامی ’ایل جی بی ٹی‘ کمیونٹی کو مرکزی دھارے میں لانے پر زور دے رہے ہیں۔ ڈیموکریٹس پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ ہم جنس پرستی کے ایجنڈے کو بچوں پر تھوپ رہے ہیں۔ ری پبلکنز کی جانب سے امریکی مسلم کمیونٹی کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ انہیں ڈیموکریٹس سے دور رکھا جا سکے تاہم اگر ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن امیدوار بن جاتے ہیں جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے تو بہت سے مسلمانوں کو دوہزارسولہ کے انتخابات یاد آئیں گے جب مسلمانوں کو نشانہ بنانا ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایک اہم عنصر تھا۔ آئندہ پندرہ ماہ امریکی سیاست کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ اس دوران لڑی جانے والی انتخابی لڑائیوں کا خاکہ سامنے آتا چلا جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات کی وجہ سے کئی دیگر ضروری کام التوا¿ میں چلے گئے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سید قیصر شریف۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)