سی پیک: وژن سے حقیقت تک

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کی ایک دہائی مکمل ہونے پر اِس کے مقصد پر غور کرنے کا موقع ہے۔ سی پیک کا آغاز دوہزارتیرہ میں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور چین کے صدر شی جن پنگ نے جغرافیائی سیاست سے جغرافیائی اقتصادیات کی طرف ٹھوس اقدام کیا۔ اس مقصد کیلئے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) جس کا مقصد قدیم شاہراہ ریشم کی بحالی ہے‘ چین کی خارجہ پالیسی کا مرکز ہے۔ دنیا کی کل خام پیداوار کا تقریباً نصف حصہ رکھنے والے 75 سے زائد ممالک نے ’بی آر آئی‘ پر دستخط کئے ہیں ’بی آر آئی‘ کا اہم جزو سی پیک کا مقصد پاکستان کے بندرگاہی شہر گوادر کو چین کے سنکیانگ خطے سے سڑک‘ ریلویز اور پائپ لائنوں کے نیٹ ورک کے ذریعے جوڑنا ہے۔ ’سی پیک‘ پورے خطے کو نمایاں طور پر متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لندن میں قائم سنٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ کے مطابق بی آر آئی دنیا کی جی ڈی پی میں سالانہ ایک کھرب ڈالر کا اضافہ کر سکتی ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں سی پیک نے چیلنجز اور تنازعات کا سامنا کیا ہے۔ ’سی پیک‘ کے تحت دونوں حکومتوں نے پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کا فیصلہ کیا۔ توانائی کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے سترہ ارب ڈالر مالیت کے متعدد منصوبوں پر غور کیا گیا۔ اب تک آٹھ منصوبے مکمل کئے جا چکے ہیں جن سے حاصل ہونے والی بجلی کی وجہ سے پاکستان میں بننے والی بجلی ’انرجی مکس‘ میں کافی بہتری آئی ہے۔ چھ سو ساٹھ میگاواٹ صلاحیت کے ساتھ پہلی چار کے وی‘ ایچ وی ڈی سی ٹرانسمیشن لائن بھی کام کر رہی ہے۔ مزید برآں ’سکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ‘ جولائی میں مکمل ہونے کا امکان ہے ’سی پیک‘ نے شمال سے جنوب تک رابطے کو بہتر بنایا اور موٹر ویز‘ بندرگاہ‘ ہوائی اڈے اور ماس ٹرانزٹ سسٹم کی تعمیر کے ذریعے لچکدار بنیادی ڈھانچے کی بنیاد رکھی۔ سی پیک کی مغربی صف بندی کے مختلف حصوں پر کام جاری ہے اور توقع ہے کہ یہ جولائی دوہزارچوبیس میں مکمل ہوجائے گا۔ خنجراب سے راولپنڈی تک آٹھ سو بیس کلومیٹر پر محیط ایک آپٹیکل فائبر کیبل بھی بچھائی گئی تاکہ ڈیجیٹل کنیکٹیوٹی کی جا سکے۔ فیڈر سڑکوں کے توسیعی نیٹ ورک کے ذریعے دیہات کو قصبوں اور شہروں سے جوڑنے والے اعلیٰ معیار کے ایکسپریس وے کا جال پاکستان کی تقریباً پنسٹھ فیصد آبادی کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ سی پیک بین الملکی اور بین الملکی رابطے کو آسان بنانے کی ایک کوشش ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر سڑکیں پاکستان کے دور دراز علاقوں سے گزرتی ہیں اور اس طرح بہتر نقل و حرکت‘ سماجی انصاف اور قومی سماجی ہم آہنگی کا باعث بنیں گی۔ عام طور پر‘ پاکستان جیسی معیشتوں میں‘ دیہی عوامل کی مارکیٹیں جیسا کہ لیبر‘ کریڈٹ‘ خام مال ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں نتیجتاً چھوٹا بے بس کسان مزدور قرض‘ استحصال‘ غربت اور کم پیداواری صلاحیت کے کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنس جاتا ہے کیونک اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ دیہی بازاروں میں اِن استحصالی سماجی و اقتصادی تعلقات کو ختم کرنے کے لئے رابطے کی کلید ہے۔ آج پاکستان میں پٹرول کی تقریباً پچاس فیصد کھپت موٹر سائیکلوں کے ذریعے ہوتی ہے اور گزشتہ دہائی کے دوران موٹر سائیکل انڈسٹری میں اچھی طرح سے توسیع ہوئی ہے جو نقل و حرکت تک رسائی کا اچھا اشارہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی‘ معاشی مواقع‘ خواندگی اور غربت کے خاتمے پر اثر پڑتا ہے۔سی پیک کی وجہ سے گوادر کی سماجی و اقتصادی ترقی میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔ گوادر پورٹ تین کثیر المقاصد برتھوں کے ساتھ آپریشنل ہے۔ حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو کراچی بندرگاہ سے گوادر کی طرف موڑ دیا ہے اور بسیمہ خضدار (این تھرٹی) کی تکمیل‘ جس کا پچانوے فیصد کام مکمل ہو چکا ہے‘ بندرگاہ کی تجارتی قابلیت میں مزید اضافہ کرے گی۔ گوادر فری زون‘ فیز ون‘ جو ساٹھ ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے‘ مکمل اور کامیابی سے جاری ہے۔ دوہزار ایکڑ اراضی پر مشتمل فیز ٹو پر ترقیاتی کام جاری ہے۔ گوادر شہر میں بجلی کا مسئلہ حال ہی میں دو ٹرانسمیشن لائنوں کی تعمیر کے ذریعے حل کیا گیا اور ترقیاتی منصوبوں سے پانی کی دستیابی یقینی بنائی گئی ہے۔ ایسٹ بے ایکسپریس وے اور پاک چائنا ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ مکمل طور پر فعال ہیں۔ گوادر شہر کے پانچ سو سے زائد طلبہ کو مختلف شعبوں میں تربیت دی جا رہی ہے۔ بندرگاہ اور فری زون کے لئے مارکیٹنگ اور سرمایہ کاری کا منصوبہ عمل درآمد کے لئے تیار ہے۔ گوادر کے ماسٹر پلان کے علاؤہ حکومت شہر کا مائیکرو لینڈ یوز پلان اور گورننس فریم ورک تیار کر رہی ہے۔ بلوچستان اسمبلی نے گوادر سٹی کو خصوصی حیثیت دینے کا قانون بنایا ہے جس کے تحت شہر کے بارہ ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے کو خدمات پر سیلز ٹیکس اور صوبائی سیس سمیت تمام صوبائی ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے مزید برآں غریب ترین گھرانوں کی چھتوں پر سولر یونٹس لگائے گئے ہیں۔ چین کے اس فراخدلانہ اقدام سے مقامی برادری میں تشکر کے خیالات پیدا ہوئے ہیں۔ نیو گوادر انٹرنیشنل ائرپورٹ اور پاک چائنا فرینڈشپ ہسپتال کی تعمیر چند ماہ میں مکمل ہونے والی ہے۔ ان پیش رفتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گوادر میں روزگار میں کئی گنا بہتری آنے کی توقع ہے۔ صنعتی تعاون میں ’نو‘ میں سے صرف ’چار‘ سپیشل اکنامک زون (ایس ای زیڈ) آگے بڑھ رہے ہیں۔ 270 ایکڑ پر محیط رشکئی کا افتتاح جولائی 2023ء میں کیا گیا تھا جس میں پہلے ہی تئیس صنعتی پلاٹ الاٹ کئے جا چکے ہیں۔ علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی میں ترقیاتی کام جاری ہیں۔ چین کی صنعتیں کاروباری لاگت کم کرنے کے لئے مختلف مقامات پر منتقل ہو رہی ہیں لیکن پاکستان میں چینی کمپنیوں نے سرمایہ کاری نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ اکنامک زونز خاطرخواہ فعال نہیں ہو سکے ہیں اور اس کی ایک وجہ کورونا وبا بھی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں ایس ٹی ای ایم تعلیم کے حوالے سے اساتذہ کی استعداد کار میں اضافہ‘ انجینئرنگ کی تعلیم کے باہمی منصوبے‘ جوائنٹ ریسرچ سنٹر آن ارتھ سائنسز‘ ٹیکنالوجی ٹرانسفر سنٹر‘ انسٹی ٹیوٹ آف سمارٹ سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی اور ہواوے ٹیکنیکل سپورٹ سنٹرز اہم اقدامات ہیں۔ سی پیک کے تحت زرعی شعبے میں بھی سرمایہ کاری ہوئی ہے جس کے لئے تحقیقی اداروں اور کاروباری اداروں میں تعاون ہو رہا ہے۔ چین نے سی پیک کے تحت سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے ایک ارب ڈالر کی گرانٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس وقت ایک ہزار سے زائد پاکستانی طالب علم چین میں مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر ان پچیس سالوں کے دوران سی پیک منصوبوں میں انجینئرز سمیت مقامی افراد کیلئے لاکھوں ملازمتی مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ امید کے ساتھ کام جاری رکھنے سے ’مشترکہ خوشحالی کے خواب‘ کو حقیقت کا روپ دینے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ ہمیں اپنے چینی دوستوں کا شکریہ ادا چاہئے جنہوں نے ان منصوبوں کو مکمل کیا۔ ہمارے سیکورٹی اہلکار تعریف کے مستحق ہیں کہ انہوں نے قومی ترقی کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ندیم جاوید۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)