بیلٹ اینڈ روڈر

چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) جسے اکثر ’نیو سلک روڈ (نئی شاہراہ¿ ریشم‘ بھی کہا جاتا ہے اپنے بنیادی تصور اور فن تعمیر کے لحاظ سے دنیا کے چند بڑے اور قدیم ترین منصوبوں میں سے ایک ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے سال دوہزارتیرہ میں اِس کا اعلان کیا اور اپنے آغاز سے لے کر اب تک یہ منصوبہ نہ صرف ایشیا سے افریقہ اور لاطینی امریکہ تک پھیل چکا ہے۔ بی آر آئی کے تحت چھ اقتصادی راہداریاں ہیں جن میں ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ بھی شامل ہے۔ بنگلہ دیش‘ چین‘ بھارت‘ میانمار اقتصادی راہداری (بی سی آئی ایم ای سی)‘ چین‘ منگولیا‘ روس اقتصادی راہداری (سی ایم آر ای سی)‘ نیو یوریشین لینڈ برج (این ای ایل بی)‘ چین وسطی ایشیا مغربی ایشیا اقتصادی راہداری (سی سی ڈبلیو اے ای سی) اور چین انڈو چائنا جزیرہ نما اقتصادی راہداری (سی آئی سی پی ای سی) اِس میں شامل ہیں۔ اب تک چین ’بی آر آئی‘ منصوبوں کے لئے ایک کھرب ڈالر مختص کر چکا ہے۔ فہرست میں روس تین سو ارب ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ قطر ڈھائی سو ارب ڈالر‘ ملائیشیا ایک سو پچاس ارب ڈالر، مصر اور ترکی سو ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے اور بھارت و پاکستان چالیس چالیس ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ کھربوں ڈالر کی اِس سرمایہ کاری میں سے تقریبا پانچ سو ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں کے لئے مختص کئے گئے ہیں جبکہ باقی رقم ٹرانسپورٹ‘ دھاتیں‘ زراعت‘ فنانس‘ رئیل اسٹیٹ اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کے وسیع پیمانے پر اقدامات پر مشتمل ہونے کے باوجود بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی بنیادی توجہ چین کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے گرد گھومتی ہے۔ اپنے عروج پر‘ اس اقدام کو بین الاقوامی برادری کے ساتھ چین کی اقتصادی شمولیت کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ ’چائنا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو انوسٹمنٹ رپورٹ‘ کے مطابق چودہ ممالک میں بی آر آئی کی شمولیت میں کمی دیکھی گئی ہے جن میں انگولا‘ نیپال‘ پیرو‘ روس اور سری لنکا شامل ہیں۔ مزید برآں ذیلی صحارا افریقہ اور مغربی ایشیا کے ممالک میں بھی اس پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ایک اور تجزیے کے مطابق ”اپنے آغاز کے تقریبا ایک دہائی بعد‘ چین کے وسیع پیمانے پر ’بی آر آئی پروگرام‘ کی رفتار سست ہوتی دکھائی دیتی ہے کیونکہ قرضوں میں کمی اور منصوبے رک جاتے ہیں۔ سال دوہزاربیس اور دوہزاراکیس میں بی آر آئی قرضوں کے چالیس وصول کنندگان نے قرض کی شرائط پر دوبارہ بات چیت شروع کی۔ سال دوہزاربائیس میں چین کے غیر ملکی قرضوں کا ساٹھ فیصد مالی بحران کا سامنا کرنے والے قرض دہندگان کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ عالمی بینک کی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سال دوہزار آٹھ سے دوہزاراکیس کے درمیان چین نے دوسوچالیس ممالک کی مدد کے لئے بائیس ارب ڈالر خرچ کئے۔ تازہ ترین اندازوں کے مطابق چین کی جانب سے ایک کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری میں دیئے گئے قرضے بھی اس میں شامل ہیں۔ دوبارہ طے شدہ قرضوں کی شرائط میں اس اضافے اور مالی طور پر کمزور قرض دہندگان کو قرضوں میں اضافے سے چین کے مالیاتی استحکام اور اس کی بین الاقوامی ساکھ پر نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔ جوں جوں یہ قرضے جمع ہوتے جا رہے ہیں‘ چین کی معیشت پر ممکنہ اثرات اور اس کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیت کا امتحان شروع ہوگا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ چینی حکام اس بدلتی ہوئی صورتحال پر کس قسم کے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ جدوجہد کرنے والی معیشتوں کی حمایت اور اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے درمیان توازن قائم کرنا بلاشبہ ’پیچیدہ مخمصہ‘ ہے۔ آنے والا سال بلاشبہ اِن پریشان کن رجحانات کے طویل مدتی مضمرات کا تعین کرنے میں اہم ہوگا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ ابوالحسن امام)