بچوں کو سائبر جرائم سے بچانا

سائبر مواصلات نے براہ راست یا بالواسطہ طور پر معاشرے کے تقریبا تمام طبقوں اور ہماری زندگی کے تمام پہلوو¿ں کو متاثر کیا ہے اب جبکہ یہ ہماری روزمرہ کی سماجی و اقتصادی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے اور یہ انفرادی اور ریاستی سلامتی کےلئے متعدد خطرات کے علاوہ بچوں کے تحفظ کےلئے بھی ایسے سنگین چیلنجز کا باعث ہے جن سے ترجیحی بنیادوں پر نمٹنے کی توقع کی جاتی ہے‘ اس تناظر میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے راقم الحروف نے موجودہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ءمیں فوجداری قوانین ایکٹ 2023ءکی شکل میں ترامیم متعارف کیں تاکہ بڑھتے ہوئے الیکٹرانک جرائم کے خلاف بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس سلسلے میں پہلے سے موجود سال دوہزارسولہ کا قانون ناکافی پایا گیا کیونکہ اس میں آج کے منظر نامے میں ہمارے بچوں کو درپیش بہت سے الیکٹرانک جرائم کا احاطہ نہیں کیا گیا۔مذکورہ ترمیمی قانون اپنی نوعیت میں واقعتاً تاریخی ہے کیونکہ یہ نہ صرف الیکٹرانک جرائم کے خلاف بچوں کی حفاظت کے حوالے سے مختلف خطرات کی جامع نشاندہی کرتا ہے بلکہ یہ الیکٹرانک جرائم کے خلاف واضح حفاظتی حصار کےساتھ بچوں کے تحفظ کو بھی یقینی بناتا ہے‘ سال دوہزارتئیس کی ترمیم میں بچوں کے خلاف الیکٹرانک جرائم سے متعلق کچھ جرائم کو پہلی بار جرم قرار دیا گیا ہے تاکہ ان آنےوالے خطرات کےخلاف ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے ‘ فوجداری قوانین ایکٹ 2023ءمیں نمایاں ترامیم میں سیکشن بائیس اے شامل ہے جو جنسی استحصال‘ درخواست یا واضح مواد شیئر کرنے کے مقصد سے نابالغوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے کےلئے آن لائن طریقوں کا استعمال کرنے والوں پر قید اور جرمانے عائد کرتا ہے‘ جبکہ سیکشن سی میں نابالغوں کے اغوا یا سمگلنگ کےلئے قید اور جرمانوں کا ذکر ہے۔ اِسی طرح سیکشن چوبیس اے سائبر بلنگ کو جرم قرار دیتا ہے جس کا مقصد کسی دوسرے شخص کو ہراساں کرنا‘ دھمکی دینا یا نشانہ بنانا یا الیکٹرانک پیغامات بھیجنا ہے اور سیکشن تیس تحقیقات کے اختیارات اور طریقہ کار کا احاطہ کرتا ہے۔ ایف آئی اے کے علاوہ پولیس بھی اس ایکٹ کے تحت جرائم کا نوٹس لینے کی مجاز ہوگی۔ سیکشن تھرٹی سی میں کہا گیا ہے کہ نابالغوں کے خلاف جرائم کی سماعت اِن کیمرے میں کی جائے گی‘ سیکشن اکتیس اے میں کہا گیا ہے کہ مواد این آر تھری سی کے خلاف کوئی مخصوص شکایت کی جائے یا نہ کی جائے لیکن ایف آئی اے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے اُس مواد کو بلاک کرنے یا ہٹانے کےلئے مجاز ہوگا۔ نئے قانون کی تیاری میں بچوں کو آن لائن استحصال سے بچانے کےلئے بین الاقوامی معاہدوں کا مطالعہ بھی کیاگیا ہے۔ بین الاقوامی منظم جرائم کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن جسے سلواڈور اعلامیہ کہا جاتا ہے‘ نے انٹرنیٹ کے ذریعے بچوں کا جنسی استحصال روکنے کی کوششوں کو مربوط کیا۔ بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کا اختیاری پروٹوکول‘ بچوں کے استحصال کو روکنے کےلئے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ اسی طرح یورپی ریاستوں نے سال دوہزار سات میں جنسی استحصال کےخلاف بچوں کے تحفظ سے متعلق کنونشن (لانزاروٹ کنونشن) متعارف کرایا‘پاکستان میں سائبر قوانین ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کے تحت آتے ہیں لیکن وہ قومی اور صوبائی دائرہ اختیار میں بھی ہیں جو فوجداری طریقہ کار پاکستان پینل کوڈ 1890ء(پی پی سی) اور قانون شہادت آرڈیننس (قانون شہادت آرڈیننس 1984ئ) سے متعلق معاملات میں قانون سازی و اصلاح دونوں کر سکتے ہیں‘اِس سلسلے میں لوگ‘ املاک اور سرکاری ادارے جیسا کہ آن لائن فراڈ‘ وائرل ٹرانسمیشن‘ مالیاتی جرائم‘ خفیہ معلومات تک رسائی اور آن لائن دہشت گردی جیسے مختلف سائبر کرائمز کی روک تھام‘ ممانعت اور سزا دینے کےلئے متعدد قوانین موجود ہیں‘ اس تناظر میں‘ راقم الحروف نے فوجداری قوانین ایکٹ 2016ءکو نافذ کرکے موجودہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2023ء(پی ای سی اے) میں ترامیم پیش کیں‘اِن ترامیم کا مقصد بچوں کو آن لائن جنسی استحصال سے بچانا ہے ‘ نئی ترمیم میں منصفانہ ٹرائل کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت ملزم کو پولیس یا ایف آئی اے کی تحویل میں دینے کے لئے نامزد عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے‘ ترمیم شدہ قانون میں قانون شہادت آرڈر 164 میں تبدیلیاں کی گئی ہیں جس کے تحت ویڈیو کال‘ وائبر‘ اسکائپ‘ آئی ایم او‘ واٹس ایپ‘ فیس بک‘ میسنجر‘ لائن کالر اور ویڈیو کانفرنس وغیرہ جیسے جدید آلات یا تکنیک کے ذریعے ریکارڈ کئے گئے گواہوں اور شواہد کو قبول کرنے کی اجازت دی گئی ہے‘یہ چیلنج رہا ہے کہ قابل اعتراض مواد اکثر سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے مثال کے طور پر فیس بک‘ انسٹاگرام اور واٹس ایپ وغیرہ پر تو ان تمام پلیٹ فارمز کا صدر دفتر امریکہ میں ہے اور ہمارے ملک اور ان کے درمیان کوئی باہمی قانونی معاونت نہیں ہے۔ اگر ہم آن لائن بچوں کے جنسی استحصال پر امریکہ جیسے اہم ممالک کے ساتھ ایم ایل اے معاہدہ کرنے پر بھی توجہ مرکوز کریں تو اصل مجرموں کو جلد تلاش کرنا آسان (ممکن) ہوسکتا ہے۔ دریں اثنا سائبر کرائم کے ملزم کے ریمانڈ کو بڑھا کر تیس دن کر دیا گیا ہے جو ابتدائی طور پر چودہ دن تھا۔ اس قانون کے تحت اگر کوئی شخص متاثرہ شخص سے غیر متعلق بھی ہو تو بھی شکایت کر سکتا ہے تاہم اسے ثبوت دکھانا ہوگا کہ شکایت درج کرانے کے لئے جرم کا ارتکاب کیا گیا تھا یا ہونے کا امکان ہے۔ نئی قانون سازی ایف آئی اے‘ پی ٹی اے اور پولیس کے درمیان سائبر غنڈہ گردی‘ آن لائن گرومنگ‘ بچوں کے جنسی استحصال‘ نقصان دہ آن لائن مواد کی نمائش‘ جنسی طرز عمل کے غلط استعمال اور غیر تجارتی استحصال کےلئے نابالغوں کے اغوا یا اسمگلنگ کےخلاف مربوط کوششوں کو یقینی بنانے کےلئے پارلیمنٹ کی طرف سے حاصل کی گئی بڑی کامیابی ہے تاہم یہ بات جتنی قابل ستائش ہے‘ موجودہ ترمیم کو نفاذ کرنے کےلئے اقدامات اور طریقہ کار اتنا ہی مشکل و ضروری ہے‘ اس ترمیم کے مناسب نفاذ کےلئے قواعد کا مسودہ تیار کیا جانا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مہناز اکبر عزیز۔ ترجمہ ابوالحسن امام)