پاکستان مشکلات بھرے دور سے گزر رہا ہے۔ قومی وسائل کی واضح کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے غربت کی شرح میں کمی نہیں ہو رہی۔ ملکی معیشت قرضوں میں جھکڑی ہوئی ہے اور قومی بچت نہ ہونے کے برابر ہے اِس پر ٹیکنالوجی کی کمی اور سیاسی بحران کی وجہ سے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہیں! سال 1949ءسے 1976ءکے درمیان (ماو¿ دور) میں چین کو پاکستان جیسی ہی صورتحال کا سامنا تھا لیکن ایک دور اندیش رہنما اور سیاستدان ڈینگ شیاو¿ پنگ آئے‘ جنہوں نے چین میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ جدید چین کے معمار ڈینگ شیاو¿ پنگ ہیں۔ انہوں نے ماضی کی پالیسیوں سے ہٹ کر چین کے لئے سب سے زیادہ موزوں دیسی پالیسیاں متعارف کیں۔خاص طور پر ترقیاتی عمل میں نجی شعبے کو شامل کرکے کاروباری اصلاحات متعارف کروائیں۔ انہوں نے مارکیٹ اکانومی اصلاحات متعارف کروا کر چین کی اقتصادی ترقی کا نیا ماڈل دیا جو چین کے لئے بڑی پیش رفت ثابت ہوئی۔ پاکستان کو اپنی ترقی کے لئے موزوں ترین معاشی اصلاحات متعارف کرانے کے لئے شیاو¿ پنگ جیسیپالیسیوںکی ضرورت ہے کیونکہ ہم غلط پالیسیوں اور ترجیحات کی وجہ سے اپنی معیشت میں مسلسل اور مستقل گراوٹ دیکھ رہے ہیں۔ چین نے ابتدائی طور پر معیشت کی بہتری کے لئے چار شعبوں کی ترقی کو ترجیح دی۔ زراعت‘ صنعت‘ دفاع اور سائنس و ٹیکنالوجی کا انتخاب کیا گیا۔ پاکستان کو بھی اپنی معیشت میں انقلابی تبدیلی لانے کے لئے اِنہی چار شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 1970ءکی دہائی کے اوائل میں چین کے برعکس پاکستان کے پاس زیادہ وسائل تھے اور آج بھی وسائل موجود ہیں۔ چین کے ترقیاتی ماڈل کو اس کی پالیسی پیراڈائم کے حصے کے طور پر زیادہ مربوط اور مستقل طریقے سے استعمال کیا جانا چاہئے۔ اس سے غربت اور قرضوں کے بھاری بوجھ سے چھٹکارا پانے میں مدد ملے گی اور مضبوط معاشی ترقی حاصل کرنے کے لئے مضبوط بنیاد رکھی جائے گی۔ ایسا کرنے سے اِن چار شعبوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کے ساتھ برآمدات کو بڑھانے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ ابتدائی طور پر اس ہدف کو چین (سی پیک کے ذریعے) اور سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے مشرق وسطیٰ کے ممالک کی مدد اور حمایت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ممالک اِن شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ جس کا پاکستان کو فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے، زراعت میں جدت کو دیکھتے ہیں جس کی ترقی یافتہ شکل ’کارپوریٹ فارمنگ‘ کی ہے اور اِس سلسلے میں پاکستان نے پہل کر دی ہے۔ ملک کے دور دراز علاقوں میں بنجر سرکاری زمینوں پر کھیتی باڑی ہو رہی ہے اور اِس کام کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت مشرق وسطیٰ کے دوست ممالک کاشتکاری کے منصوبوں میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اِسی طرح اگر شرائط و ضوابط کے تحت ’یو ایس پاک گرین الائنس‘ کو سرمایہ کاری کے لئے مدعو کیا جائے تو زرعی شعبے میں جدت لائی جا سکتی ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں زراعت کی پائیدار ترقی کے طور پر نشاندہی کی گئی ہے‘ جس کے ذریعے دیہی آبادیوں کے لئے معاش کی فراہمی ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلہ میں زراعت‘ دیہی ترقی و بحالی اور ماحول دوست ترقی جیسے شعبوں میں تعاون کا آغاز کیا گیا ہے۔ پاکستان دیہی آبادیوں کے لئے زراعت کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کرکے جامع شرح نمو چاہتا ہے اور اِس ماڈل کے ذریعے خوشحالی اور ترقی حاصل کرسکتا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ کا پیغام سی پیک کے دوسرے مرحلے میں فراہم کردہ مواقع کے ذریعے پائیدار اور ترقی یافتہ پاکستان کے لئے بڑی امید ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے ذریعے ٹیکنالوجی کی منتقلی ہوگی جس سے جدید فارمنگ کے شعبے میں خود کفالت کا ایک طویل سفر طے ہو سکے گا۔ ملک کی اقتصادی ترقی تبدیل کرنے کے لئے دوسری سب سے سٹریٹجک ترجیح‘ صنعت اور صنعتی ترقی ہونی چاہئے۔ چینی پالیسی سازوں نے ہوشیاری سے اس خیال کو خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) کی صورت سی پیک میں شامل کیا ہے۔ ون ونڈو آپریشن اور سٹارٹ اپ کا جدید تصور صنعتی ترقی سے متعلق حکمت عملی کا حصہ ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں جدید زراعت کی مدد سے پاکستان میں صنعتی کلسٹرز کی ترقی میں مدد ملے گی جس سے برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ اِسی طرح دفاع اور دفاعی پیداوار ایسے شعبے ہیں جن میں چین نے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور اگر اس شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے تو پاکستان زیادہ دفاعی پیداوار کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے لئے دفاعی پیداوار میں سرمایہ کاری کی فوری ضرورت ہے۔ آخر میں سائنس و ٹیکنالوجی کا شعبہ ہے اور اِس میں بھی بھاری سرمایہ کاری کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اسصورتحال میں پاکستان کیسے ترقی کر سکتا ہے؟ قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کو آٹھ سے دس فیصد تک بڑھانے کے لئے قرضوں کی واپسی کے ساتھ غربت سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ قرضوں کے جال سے صرف اعلی معاشی ترقی کے ذریعے ہی نمٹا جاسکتا ہے‘ جو سائنس و ٹیکنالوجی میں تحقیق کے ذریعہ ممکن ہے۔ 1970ءکی دہائی کے اواخر میں عظیم ڈینگ شیاو¿ پنگ کی طرف سے متعارف کرایا گیا چینی اقتصادی ترقی کا ماڈل درحقیقت پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے لائحہ عمل ہے لیکن اس ترقی کے عوامل میں سے ایک چین میں مستحکم سیاسی نظام تھا جو ترقی کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے اور اِس سے معاشی ترقی میں سرمایہ کاری آسان ہو جاتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسن بیگ۔ ترجمہ ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام