بلوچستان تیزی سے پاکستان کے موسمیاتی ’ہاٹ سپاٹ‘ کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ مون سون بارشیں بلوچستان میں ہو رہی ہیں جن سے بڑے پیمانے پر سیلاب کی وجہ سے اِس صوبے کا ملک کے باقی حصوں سے زمینی رابطہ گزشتہ دو برس میں کم از کم دو بار منقطع ہو چکا ہے۔ تصور کریں بلوچستان جو کہ میساچوسٹس سمیت امریکہ کی کم از کم سات ریاستوں سے بڑا علاقہ ہے اور یہ ہفتوں اور مہینوں ملک کے دیگر حصوں سے منقطع رہے تو اِس کی وجہ سے عوام کے لئے کس قدر مشکلات پیدا ہوتی ہوں گی۔ دوسری طرف زیادہ بارشوں کی وجہ سے کچی پکی سڑکیں اور ریلوے لائنیں بہہ جاتی ہیں جنہیں بحال کرنے کے لئے پھر سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان کو اب تک ناموافق موسمی حالات نے نمایاں نقصان پہنچایاہے۔ واضح طور پر آب و ہوا کی تبدیلی پاکستان کی معیشت کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔حالیہ برسوں میں بلوچستان میں پنجاب کے کئی حصوں کے مقابلے زیادہ بارشیں ہوئیں جبکہ پنجاب روایتی طور پر مون سون کی موسلا دھار بارشوں کا مرکز ہے۔ بلوچستان کو اب پانی کے دوہرے بحران کا سامنا ہے ایک تو پانی کی شدید قلت ہے اور دوسرا ہر سال بارش کا پانی طغیانی کی صورت اپنے ساتھ تباہی لا رہا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلیوں کی وجہ سے قلت اور زیادتی دونوں میں تیزی آئی ہے۔ اِس منظرنامے میں ’زرعی ماحولیاتی زونز‘ کی نوعیت تبدیل ہونا شروع ہوگئی ہے‘ جس سے صوبے کے اندر مختلف علاقوں کی منفرد خصوصیات اور ماحولیاتی حالات متاثر ہیں۔ بلوچستان کے تقریبا دس دریاو¿ں اور تالابوں کے آبی وسائل مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ زیر زمین پانی سمیت فی کس پانی کی دستیابی گزشتہ برسوں کے دوران قومی اوسط سے کہیں زیادہ تیزی سے کم ہوئی ہے جس کی وجہ سے مقامی افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ پانی کے انتظام یا آبی ذخائر کی بحالی اور کاریز کی دیکھ بھال جیسے اقدامات کے ذریعے پانی کی دستیابی میں اضافے کی حکومتی کوششیں وقتی طور پر تو دیکھنے میں آتی ہیں لیکن اِن میں طویل المدتی ترقیاتی عزم کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ایک سو ڈیموں کا منصوبہ اپنی جگہ اہم لیکن یہ درپیش چیلنجوں کا مکمل حل نہیں ہیں۔ یہ کوششیں اب متعدد موسمیاتی خطرات‘ خاص طور پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت‘ بے ترتیب بارش کے پیٹرنز اور سیلاب و خشک سالی اور ہیٹ ویو جیسے انتہائی واقعات کی وجہ سے بھی متاثر ہیں۔ زیادہ بارش بلوچستان کے لئے تین گنا خطرہ پیدا کر رہی ہے1) پانی کے تیز رفتار اور زیادہ بہاو¿ کی وجہ سے اوپری مٹی بہہ رہی ہے۔2 ) بارشوں سے سرکاری بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے اور3) موسمیاتی اثرات سے انسانی جانوں‘ معاش‘ مویشیوں اور دیگر اثاثوں‘ خاص طور پر گھروں اور اراضی کے کٹاو¿ کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔بلوچستان کی بنجر اور نیم بنجر زمینوں اور ماحولیاتی نظام میں زیادہ بارشوں کو برداشت کرنے کی گنجائش و صلاحیت نہیں ہے کیونکہ اِس سے مٹی کی زرخیزی‘ مٹی کی ساخت‘ پیداواری صلاحیت‘ حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام پر طویل مدتی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم مختلف ماڈلز اور طریقوں کو لاگو کرکے مقامی اور واٹر شیڈ کی سطح پر رن آف اور اوپری مٹی کے نقصانات کی پیمائش ممکن ہے۔ اس طرح کے مطالعات ضروری ہیں جن سے موسمیاتی تبدیلیوں سے تحفظ اور تخفیف کی منصوبہ بندی ہو سکتی ہے۔ ماہرین ماحولیات اور ماہر معاشیات مٹی کے نقصانات کی شرح اور اِن کی ماحولیاتی اور معاشی قدروں کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آبی ذخائر میں مٹی کے نقصانات کے معاشی اثرات کا تخمینہ باقاعدگی سے سیلاب کے پانی و بجلی کی پیداوار کے لئے پانی کے ذخائر کو رکھنے کی صلاحیت میں کمی کا جائزہ لے سکتا ہے۔ بہت سے سرکاری محکموں کے پاس ان اخراجات کا حساب لگانے کی صلاحیت موجود ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے بنیادی ڈھانچے کا نقصان ہو رہا ہے۔ صوبائی انفراسٹرکچر کو مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب کا مقابلہ کرنے کےلئے ڈیزائن نہیں کیا گیا۔ بارشوں نے ریکارڈ توڑ دیا ہے اور اس کے نتیجے میں غیر متناسب طور پر زیادہ معاشی نقصان ہوا ہے‘ جس نے پچھلے 75 سالوں کے ترقیاتی فوائد ختم کر دیئے ہیں۔ ناقدین موسمیاتی تبدیلیوں سے ہوئے بھاری نقصانات کا ذمہ دار ناقص اور غیر شفاف خریداری کے عمل کو قرار دیتے ہیں جو موجودہ تعمیراتی معیارات پر پورا نہیں اُترتی تاہم یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تعمیراتی معیارات اور تعمیرات کے رہنما اصول و خطوط کے تحت اِنہیں آب و ہوا سے کس حد تک محفوظ کیا گیا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی یا جوڈیشل کمیشن کو اِس سلسلے میں معاملے کی تحقیقات کرنا ہوں گی جبکہ تکنیکی مطالعے‘ قومی تعمیراتی معیارات اور رہنما خطوط پر نظر ثانی کی بھی ضرورت ہے جس کی سربراہی وفاقی اور صوبائی پلاننگ بورڈز کے ساتھ مل کر پاکستان انجینئرنگ کونسل کو کرنی چاہئے۔ بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے ہوئے نقصانات کی وجہ سے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جنہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے نقد رقم فراہم کی جا سکتی ہے۔ صوبے کو طویل مدتی ترقیاتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے‘ ورلڈ بینک کے نے سندھ فلڈ ایمرجنسی ہاو¿سنگ ری کنسٹرکشن پراجیکٹ متعارف کرایا ہے جس کے ذریعے فلڈ پروف مکانات کی تعمیر کے لئے نقد گرانٹ دی گئی ہے۔ یہ پراجیکٹ خواتین کو بااختیار بنانے کے ساتھ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ ہر فائدہ اٹھانے والے کو حکومت سے زمین کی ملکیت کے دستاویزات ملیں۔ پاکستان کی کل آبادی کا چھ فیصد سے بھی کم آبادی والا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ناطے بلوچستان کو کئی دہائیوں سے کم ترقیاتی وسائل مل رہے ہیں کیونکہ بلوچستان کی آبادی کم ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں نے بلوچستان کے مسائل (مشکلات)اور کمزوری و ناتوانی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر علی توقیر شیخ۔ ترجمہ ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام