امریکہ کی کال اور عالمی ردعمل

یوکرین میں امریکہ کے پالیسی آپشنز بہت سے سٹریٹجک مفروضوں سے متاثر ہیں لیکن دو غلط مفروضے پہلے سے ہی برے فیصلوں، ناقص منصوبہ بندی اور یوکرین کی جنگ میں امریکہ کے لیے ناپسندیدہ نتائج کا باعث بن رہے ہیں۔ پہلا مفروضہ غیر فوجی ذرائع کے استعمال سے متعلق تھا اور اس بنیاد پر تھا کہ غیر فوجی ذرائع کا استعمال جیسے کہ اقتصادی پابندیاں لگانا، اقتصادی ناکہ بندی کرنا، اتحاد بنانا، سفارتی تعلقات منقطع کرنا اور معلومات اور قانونی جنگوں کا انعقاد کرنا۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے صدر ولادیمیر پیوٹن کے وارنٹ گرفتاری روس کو کمزور کر دے گا اور اسے بین الاقوامی تنہائی کا شکار کر دے گا۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جیسے جیسے جنگ آگے بڑھے گی، روس کمزور ہوتا جائے گا اور اسی طرح پیوٹن کی اقتدار پر گرفت کمزورہو گی۔چوبیس ماہ بعد کوئی کہہ سکتا ہے کہ غیر فوجی ذرائع سے دباؤ غیر موثر ثابت ہوگا۔۔ نہ تو روس دباؤ میں آیا ہے اور نہ ہی اقتدار پر پیوٹن کی گرفت کمزور ہوئی ہے۔ جنگ شروع ہونے پر، امریکہ نے 911 ڈائل کیا اور امید ظاہر کی کہ پوری دنیا اس کی کال لے گی۔ کالیں کی گئیں لیکن عالمی ردعمل  واضح طور پرتقسیم تھا اور ممالک، خاص طور پر افریقہ، ایشیا اور یہاں تک کہ لاطینی امریکہ سے، امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ بیک وقت اچھے تعلقات رکھنے کے لیے اپنی ترجیحی سفارتی اور صف بندی کی حکمت عملی کے طور پر اس جنگ کواستعمال کیا۔کوئی بھی ان ریاستوں کو مورد الزام ٹھہرانا پسند نہیں کرے گا کیونکہ ان غیر یقینی وقتوں میں واضح رخ اختیار کرنے کا مطلب ہے اپنے خطرات کو زیادہ سے زیادہ کرنا اور اپنے مستقبل کے مواقع کو کم کرنا کیونکہ امریکہ اور روس دونوں ہی بڑی طاقتیں ہیں اور یہ جنگ بھی تمام جنگوں کی طرح بالآخر ختم ہو جائے گی لیکن  ان کے اثرات بدستور موجود رہیں گے۔ چھوٹی اور کمزور ریاستوں کے لیے  یہ اثرات ختم نہیں ہوں گے۔ غیر فوجی ذرائع استعمال کرنے کے مفروضے میں ایک سیاسی جز بھی ہے جو دنیا کو متحد کرنے میں نہیں بلکہ تقسیم کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔روس کے خلاف اتحاد ڈیموکریٹک پیس تھیوری کے بینر تلے بنایا گیا ہے۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ جمہوریتیں ایک دوسرے  کی سالمیت پر زیادہ یقین رکھتی ہیں اور غیر جمہوری ممالک کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا، تمام جمہوری ممالک کو ان قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ساتھ کھڑا ہونا چاہئے جو غیر جمہوری اور پرامن دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ سیاسی جنگ ہے اور نہ صرف روس بلکہ چین کے سیاسی نظاموں پر بھی براہ راست حملہ ہے، یہ دونوں نہ صرف بڑی طاقتیں ہیں بلکہ دو مضبوط ستون ہیں جو ممکنہ طور پر کثیر قطبی دنیا کو برقرار رکھنے اور برقرار رکھنے کے قابل ہیں۔ کیا امریکہ ہر چند سال بعد آمریت کے خلاف جنگیں جاری رکھے گا؟ کیا یہ جمہوریت کی خدمت کر رہی ہے یا اپنے  ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی۔دو دہائیاں قبل صدر بش نے ایک اتحاد بنایا تھا اور ایک غیر قانونی جنگ میں عراق کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تلاش کرنے اور تباہ کرنے کے غلط بہانے سے عراق پر حملہ کیا تھا۔ صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانا  مقصد تھا۔ لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عراق میں تیل کے ذخائر پر کنٹرول امریکی حملے کی اصل وجہ تھی۔ ایک بڑا سبق جو دنیا نے عراق جنگ سے سیکھا وہ یہ تھا کہ فوجی مہمات کے ذریعے  ماحول کو درہم برہم کرنے کی حکمت عملی فطری طور پر بہت بڑے خطرات سے بھری ہوئی ہے، لیکن امریکہ نے ایسا کرنا بند نہیں کیا۔دنیا کو جمہوری اور غیر جمہوری بلاکوں میں تقسیم کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے اور امریکہ نے گزشتہ دو دہائیوں سے اپنی عسکری خارجہ پالیسی کو بروئے کار لا کر اس عالمی تقسیم کو فعال طور پر آگے بڑھایا ہے۔ افغانستان، عراق اور دیگر ممالک کو جمہوری بنانے کی امریکی کوششوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے۔ آج پوری دنیا میں جمہوریتیں پسپائی اختیار کر رہی ہیں اور کسی کو یقین نہیں ہے کہ کب کوئی دوسری جمہوریت بھی آمرانہ ریاست بن جائے گی۔ امریکی دوہرے معیار نے اس کی اصولی پالیسیوں اور اس کے غیر اصولی نفاذ کے درمیان خلیج کو بھی کھول دیا ہے۔ مالی، برکینا فاسو اور نائیجر میں فوجی بغاوتیں غلط ہیں کیونکہ انہوں نے جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ دیا تھا لیکن کسی اور ملک میں فوجی بغاوت درست تھی کیونکہ اس نے امریکی مفادات کی خدمت کی۔لہٰذا، اگر عالمی جنوب کے کچھ ممالک اب امریکہ کی 911 کال کو قبول نہیں کرتے ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا اب امریکی دوہرے معیارات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان ممالک کے عوام اس قیادت کی فعال حمایت کرتے ہیں جو نہ صرف مغربی نو لبرل استعمار کے خلاف لڑنے کا وعدہ کرتی ہے بلکہ امریکی نگرانی، دباؤ، اثر و رسوخ اور مداخلت کے تحت کام نہ کرنے کے واضح سیاسی عزم کو ظاہر کرتا ہے۔اگر روس کو غیر فوجی طریقوں سے الگ تھلگ کرنے کا پہلا امریکی مفروضہ کامیاب نہیں ہوا تو دوسرے غلط امریکی مفروضے نے بھی یوکرین میں امریکہ کو صحیح پالیسی بنانے میں مدد نہیں دی‘ روسی افواج اب بہت گہرائی میں گھس چکی ہیں اور تین ماہ قبل شروع کی گئی یوکر ینی جوابی کاروائی میں بہت کم فائدہ ہوا ہے اور تقریباً مکمل طور پر رک گیا ہے۔ یوکرین کے پاس اتنی بڑی طاقت کی فوج نہیں ہے کہ وہ کسی او رطاقت کی فوج کے ذریعے زمین کے حصول ممکن بنا سکے۔ روس مشرقی یوکرین میں ڈونباس کے علاقے کو برقرار رکھنے کے لئے جنگ جاری رکھے گا اور مضبوط فوج کے بغیر یوکرین کے لئے روسی فوجی کامیابیوں کو چیلنج کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔(بشکریہ  ٹریبیون، تحریر: ڈاکٹر محمد علی احسان،ترجمہ: ابوالحسن امام)