موسمیاتی تبدیلی: پاکستان کی سولہ ماہ میں کارکردگی

ایک چھوٹا سا قصہ پاکستان میں ماحولیات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے بارے میں علمی الجھن اور سماجی یا سیاسی سرمایہ کاری کی کمی کا خلاصہ پیش کرتا ہے۔ راقم الحروف نے جب اپریل دوہزاربائیس میں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کی وفاقی وزارت سنبھالی تو اسے صرف وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کہا جاتا تھا۔ بعد میں کابینہ نے میری درخواست پر اِس کے نام میں ماحولیات کا اضافہ کر دیا کیونکہ وزارت تمام بین الاقوامی ماحولیاتی‘ حیاتیاتی تنوع اور آب و ہوا کی تبدیلی کے معاہدوں اور کنونشنوں کے لئے نوٹیفائیڈ ادارہ تھا‘ ساتھ ہی مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا انتظام کرنے والے وائلڈ لائف بورڈ کا مرکزی محکمہ بھی یہی تھا۔ جب میں اس محکمے کے دفتر میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ دروازے پر لگے نشان پر ’موسمیات‘ لکھا ہوا ہے‘ کئی ہفتوں کی گہری مشاورت کے بعد اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ موسمیات کی بجائے ماحولیات لکھا جانا چاہئے جو زیادہ مناسب نمائندگی ہوگی۔ اس کے بعد سے موسمیاتی بحرانوں سے نمٹنے کے سولہ مہینے کا سفر ہوا۔ اپریل میں پاکستان نے غیرمعمولی گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) کا سامنا کیا۔ جون کے دوران مسلسل تیسرے سال بھی سندھ کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت 53 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ رہا۔ پاکستان ایک اور سال سیارے کے گرم ترین مقامات میں سے ایک تھا۔ اِسی وجہ سے تین صوبوں کے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی جبکہ ملک کے شمال میں برفانی جھیلوں کے پھٹنے سے سیلاب آیا۔ ہم سردیوں سے براہ راست موسم گرما میں چلے گئے تھے‘ جو اسلام آباد جیسے شہر کے لئے معمول نہیں ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی نے موسموں کو نگلنا شروع کر رکھا ہے۔ گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی غلطیاں اُس سمجھ بوجھ سے کہیں زیادہ تھیں جن کے بارے میں عموما بات چیت یا غوروخوض کیا جاتا ہے۔ سولہ مہینوں میں‘ اِس چھوٹی سی وزارت نے اپنے آپ کو اور ملک کو درپیش آب و ہوا کے چیلنجز کا ازسرنو جائزہ لیا اور اگرچہ بہت سے کام کئے لیکن ابھی بھی ایک طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ہمارا دائرہ¿ کار وفاقی حکومت تک محدود تھا‘ جو بین الاقوامی معاہدوں کو پورا کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا جن کے لئے قومی فریم ورک اور فوکل پوائنٹس کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بات اپنی جگہ چیلنج تھی۔ اسلام آباد کے علاوہ بھی ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقدامات اور نظم و نسق میں اصلاحات کی ضرورت تھی جو اِس حوالے سے قومی فریم ورک کی عدم موجودگی میں ممکن نہیں تھا۔ ہم نے گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) سے نمٹنے کے لئے ’ٹاسک فورس‘ تشکیل دی جس میں تمام صوبوں سے لوگوں کو شامل کیا گیا اور اِسی کوشش کے تحت جنگلات کی آگ کے حوالے سے بھی ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔ پہلے دو اجلاس میری صدارت میں وزیراعظم ہاو¿س میں منعقد ہوئے اور ہم نے دیکھا کہ تمام صوبوں نے ہماری رہنمائی اور استعداد کار بڑھانے کو سراہا اور تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی جو ایک مثبت ردعمل تھا۔ ٹاسک فورسز کی طرف سے رہنما خطوط (اصول) بنائے گئے تاکہ ملک کے مختلف علاقوں میں درپیش موسمیاتی چیلنجوں سے کیسے نمٹا جائے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ آج تک‘ اِن ہدایات کو انسانی زندگیاں بچانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ڈیلٹا کے علاقے کا تیزی سے صحرائی ہونا ایک اور اہم چیلنج ہے جبکہ پانی کی قلت کا سامنا بھی ہے۔ وزارت آبی وسائل نے پانی کے تحفظ سے متعلق قومی سطح پر بات چیت شروع کی جبکہ ہم نے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ساتھ مل کر ہر صوبے میں اپنے ویٹ لینڈز کے تحفظ اور بحالی کے لئے ریچارج پاکستان منصوبے پر کام تیز کر دیا ہے۔ جولائی دوہزارتیئس تک گرین کلائمیٹ فنڈ (جی سی ایف) نے ڈونرز کی مدد سے اس منصوبے کے لئے 7 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی مدد ملنے کا وعدہ کیا گیا تاہم ابھی عملاً بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے ’یو این ای پی‘ اور ’اقوام متحدہ‘ کے دیگر اداروں کے تعاون سے بین الاقوامی اور قومی سطح پر پچیس حصوں پر مشتمل لیونگ انڈس انیشی ایٹو کا آغاز کیا اور اِسے مکمل بھی کیا۔ جس کے لئے صوبوں کے ساتھ مشاورت ریکارڈ وقت میں مکمل کی گئی۔ آگے چل کر‘ لیونگ انڈس (دریائے سندھ) کو بچانے کے لئے فعال حکمت عملی تیار کی گئی ہے جس کے پانیوں پر پاکستان کی 80فیصد زندگی کا انحصار ہے۔ یہ بات اپنی جگہ تکلیف دہ ہے کہ دریائے سندھ دنیا کا چوتھا آلودہ ترین دریا بن چکا ہے لیکن یہ پاکستان کی لائف لائن ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ حکومت صوبوں کو اِس متعلق ترجیحات پیش کرنے کی ترغیب دے گی جن کی ہم نے فنانسنگ اور ترقی کے لئے نشاندہی کی ہے ہم ’یو این ڈی پی‘ کے ساتھ چلنے والے ’جی ایل او ایف‘ پروگراموں کے ذریعے اپنے ابتدائی وارننگ سسٹم کے ذریعے زندگیاں بچانے میں کامیاب رہے۔ اس پروگرام کو دوسرے مرحلے میں ایک ایسے علاقے میں سب سے کامیاب کم لاگت کمیونٹی پر مبنی پروگراموں میں سے ایک کے طور پر بڑھایا گیا جہاں قطبی خطے سے باہر گلیشیئرز کی سب سے زیادہ تعداد موجود تھی۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعظم کی سربراہی میں قومی کونسل برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں گرین ہاو¿س گیسوں کا اخراج کم کرنے سے متعلق قومی ذمہ داری اور عالمی سطح پر ماحولیاتی انصاف کے لئے پاکستان کے کیس کو پیش کرنے کے حوالے سے حکمت عملی وضع کی گئی۔ پاکستان عالمی سطح پر موسمیاتی ہاٹ اسپاٹس میں واضح طور پر فرنٹ لائن ملک ہے۔ اِس ماحولیاتی نقصان کو کم کرنے کے لئے سخت جدوجہد کی گئی اور وزیر خزانہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے ہوئے نقصانات کو جی 77 پلس اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ اِس اجلاس کی سربراہی چین نے کی اُور کانفرنس کے اٹھارہ دن پاکستان کو درپیش اُور لاحق ماحولیاتی خطرات و نقصانات کو اُجاگر کیا گیا۔ آب و ہوا سے متاثرین کی بحالی کے لئے نہ صرف مالی اعانت بلکہ تکنیکی امداد کی بھی ضرورت ہے جس کی عدم موجودگی تعمیر نو کی راہ میں ’حقیقی رکاوٹ‘ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے خواتین‘ بچے اور مالی طور پر کمزور دیگر طبقات طبقات زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ سال دوہزاربائیس کے سیلاب سے سیکھے گئے اسباق سامنے رکھتے ہوئے امداد و بحالی کے منصوبوں کی ضرورت تھی جسے وزارت آب و ہوا نے عالمی تنظیم ’آئی یو سی این‘ کی مدد سے مکمل کیا اور ایک کلائمیٹ جینڈر پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز ہوا۔ قابل ذکر ہے کہ اِن تمام تر منصوبہ بندی میں خواتین اور کمزوری طبقات کو مرکزی دھارے میں لانے کے لئے کوششیں کی گئیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ ترجمہ ابوالحسن امام)