موسمیاتی تبدیلی: عالمی درجہ حرارت میں اضافہ 

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حال ہی میں یو این ہیڈکوارٹرز میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیش آئے سانحات پر بات کرتے ہوئے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ کرہ¿ ارض ’گلوبل وارمنگ‘ کے دور سے گزر چکی ہے اور اب ہمیں ’انتہائی درجہ¿ حرارت یعنی ’اُبلتے ہوئے دور‘ کا سامنا ہے‘ دنیا بھر سے موسمیاتی سائنس دانوں نے جولائی کے پہلے تین ہفتوں میں ریکارڈ کئے جانےوالے انتہائی بلند اور ریکارڈ توڑ درجہ حرارت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے اب تک کا ’گرم ترین مہینہ‘ قرار دیا ہے‘ عالمی موسمیاتی تنظیم اور یورپی کمیشن سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے جولائی کے مہینے میں موسم کی صورتحال کو ’قابل ذکر اور غیر معمولی‘ بیان کیا ہے‘ درحقیقت یہ بیانات تعجب خیز نہیں خاص طور پر جب ہم پاکستان کے تناظر میں اِنہیں دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے طول و عرض میں بالخصوص شہری زندگی حالیہ چند برس کے دوران اُور یہاں تک کہ رواں سال کے دوران بھی بڑے پیمانے پر موسمی درجہ¿ حرارت کے اتار چڑھاو¿ یعنی غیر معمولی موسمی حالات کا سامنا کر چکی ہے۔ ’ڈبلیو ایم او‘ کی حالیہ رپورٹ جس کا عنوان ’سٹیٹ آف دی کلائمیٹ ان ایشیا 2022ئ‘ ہے میں ایشیا کو دنیا کا سب سے زیادہ آفت زدہ خطہ قرار دیا گیا ہے اور خطے میں ہونے والے زیادہ تر شدید موسمی واقعات میں پاکستان کا ذکر کیا گیا ہے‘ ان شدید موسمی واقعات میں جیکب آباد جیسے شہروں میں شدید گرمی کی لہر سے لے کر پری مون سون سیزن میں درجہ حرارت اُنچاس ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جانے سے لےکر جون سے ستمبر تک دوہزاربائیس کے مون سون سیزن کے دوران پیش آنے والی مہلک سیلابی آفات شامل ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کی کہانی رواں سال بھی اِسی منصوبے پر چل رہی ہے کیونکہ حال ہی میں مون سون کی بارشوں نے لاہور اور کراچی کے میٹروپولیٹن شہروں میں شہری اور فلیش فلڈ کی شکل میں تباہی مچائی ہے۔ لاہور کے شہری علاقوں کی پریشان کن تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں اور اِس سے مقامی لوگوں کی زندگیاں رک گئی ہیں کیونکہ موسمیاتی اثرات کی وجہ سے عمومی کام کاج اور روزمرہ کے بنیادی کام سرانجام دینے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں اگرچہ گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب حکام کو جگانے کےلئے کافی ہوتا لیکن موجودہ سال کی مردم شماری کے مطابق ملک میں چوبیس کروڑ سے زیادہ افراد کم از کم آنکھیں کھول دینے کےلئے کافی ہے اگرچہ ان دونوں واقعات کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے لیکن آبادی میں اضافے کو روکنے کےلئے کوئی قابل عمل لائحہ عمل ابھی تک پیش نہیں کیا گیا۔ ابتدائی طور پر‘ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آبادی اور ماحولیات کو انتظام اور پالیسی سازی کے مخصوص شعبوں کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا‘ اگر کچھ بھی ہو‘ تو آبادی کا انتظام آب و ہوا سے پیدا ہونے والی کسی بھی آفت کا حصہ ہے اور اس طرح آب و ہوا کی آفات سے نمٹنے کےلئے اسے خارجی عنصر کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے چاہے وہ شدید ہیٹ ویو یا شہری و دیہی علاقوں میں سیلاب کی شکل میں ہو۔ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں شدید گرمی کی شدت کے باعث درجنوں اموات ہوئی ہیں جبکہ سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کے حالات بھی زیادہ خوشگوار نہیں ہیں اگرچہ یہ سب فوری اثرات ’عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہے جسے اُبلتا ہوا قرار دیا گیا ہے اور ماہرین کہتے ہیں موسمیاتی اثرات کے باعث غذائی عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی صورت آفات کے طویل مدتی اثرات کسان اور کاشتکار محسوس کر رہے ہیں اور ایک عام آدمی بھی افراط زر اور غذائی عدم تحفظ کی شدت محسوس کر رہا ہے۔ورلڈ فوڈ پروگراماور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک مشترکہ رپورٹ میں پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال ”انتہائی تشویش ناک“ ہے اور پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں کیا گیا ہے جہاں پچاسی لاکھ سے زائد افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں‘ اسکے ساتھ ہی ہمیں مون سون سیزن کے دوران مزید سیلاب کا خطرہ بھی لاحق ہے جس سے قومی معیشت مزید خراب ہوسکتی ہے‘ رواں سال کی مردم شماری اگرچہ بہت سارے سوالات کےساتھ ختم ہوئی ہے اور ضرورت جامع اعدادوشمار کی ہے جس کی روشنی میں ترقی کا ایک جامع نقطہ نظر وضع کیا جائے۔ وقت ہے کہ اِس ضرورت کو محسوس کیا جائے کہ آبادی میں اضافہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے‘ وقت اِس بات کا بھی ہے کہ آبادی کے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی وسائل کی تقسیم کی جائے‘ اب جبکہ دنیا ’اُبلتے ہوئے (ناقابل برداشت اور ناقابل یقین حد تک زیادہ) درجہ حرارت‘ کے دور میں داخل ہو چکی ہے اور پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اسے شدید موسمی سانحات کا شکار بنا رہا ہے تو ہمیں مستقبل کےلئے خود کو تیار کرنےکی ضرورت ہے‘ گلوبل وارمنگ کا دور گزر گیا‘ جس نے ہماری زندگیوں اور معاش کو متاثر کیا اور ماضی میں پیش آئے واقعات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے‘ ’عالمی کھولتے ہوئے درجہ¿ حرارت‘ سے بچنا آسان کام نہیں لیکن اگر عوام کو موسمیاتی تبدیلیوں اور آبادی میں اضافے جیسے محرکات کے بارے میں شعور دیا جائے اور قومی ترقی و غذائی تحفظ کا جامع نقطہ نظر اپنایا جائے تو حال و مستقبل میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بڑی حد تک کم کئے جا سکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر میمونہ قاضی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)