مغربی افریقہ میں بغاوتیں

نائیجر میں چھبیس جولائی کو ہونے والی فوجی بغاوت نے مغربی افریقیائی خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی میں اضافہ کر دیا ہے۔ نائیجر کے ایلیٹ صدارتی گارڈ کے سربراہ جنرل عبدالرحمن چیانی نے فرانسیسی حمایت یافتہ صدر کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد خود کو ملک کا رہنما قرار دیا ہے۔ نائیجر میں فوجی بغاوتوں کی تاریخ رہی ہے۔ 1960ءمیں فرانس سے آزادی کے بعد اِس ملک میں چار کامیاب اور متعدد ناکام بغاوتیں رونما ہو چکی ہیں۔ فرانس نے نائیجر پر تقریبا ًستر سال حکومت کی۔ کسی بھی دوسری نوآبادیاتی طاقت کی طرح‘ فرانس نے اِس ملک کے معدنی وسائل کو لوٹا اور ان کا استحصال کیا‘ جس میں یورینیم‘ کوئلے اور سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں تاہم نائیجر اب بھی غریب ہے اور دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا میں یورینیم پیدا کرنے والا ساتواں بڑا ملک بھی ہے۔ نائیجر زمین سے گھرا ہوا ملک ہے اور اپنی درآمدات اور برآمدات کے لئے دیگر ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریبا ًپچیس ملین آبادی کے ساتھ‘ نائیجر دنیا کا دوسرا سب سے کم ترقی یافتہ ملک ہے جہاں انتہائی غربت اور بھوک ہر طرف پھیلی ہوئی ہے کیونکہ بدعنوان اشرافیہ خود کو مالا مال کر رہی ہے۔ فرانس اپنی یورینیم کی فراہمی کے لئے بڑے پیمانے پر نائیجر پر انحصار کرتا ہے اور اسی طرح آزادی کے بعد بھی ملک کے معدنی اور مالی وسائل کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اِس وقت مغربی افریقہ میں دو جنگیں جاری ہیں۔ سب سے پہلے عوام کی بقا کی جدوجہد ہے۔ جو غربت‘ بیماری‘ بھوک‘ بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ آ چکے ہیں اور اپنی زندگیوں کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ نائیجر کے عوام بہتر زندگی‘ سلامتی‘ روزگار‘ بہتر انفراسٹرکچر‘ رہائش اور بنیادی خدمات چاہتے ہیں۔ ان کی لڑائی بنیادی ضروریات اور بہتر مستقبل کے لئے ہے۔ پھر حکمران اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش چل رہی ہے جو قومی وسائل کی لوٹ مار سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں۔ حکمران اشرافیہ کے یہ مختلف دھڑے اقتدار میں رہنے کے لئے سامراجی طاقتوں کی مدد اور حمایت حاصل کرتے ہیں۔ بدلے میں مقامی کٹھ پتلی حکمران ملٹی نیشنل اور سامراجی ممالک کو اپنے ممالک کے قدرتی وسائل لوٹنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہی کچھ نائیجر اور مغربی افریقہ کے دیگر ممالک میں ہو رہا ہے۔نائیجر میں فوجی بغاوت کی بنیادی وجہ صدر بزوم اور جنرل تچیانی کے درمیان اقتدار کے لئے کشمکش ہے لیکن بیرونی عوامل کی مداخلت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا میں یہ خبریں آ رہی ہیں کہ صدر جنرل چیانی کو عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اس فوجی بغاوت کی وجہ جو بھی ہو‘ عالمی طاقتیں اب مغربی افریقہ میں جاری اقتدار کی کشمکش کا حصہ ہیں۔ نائیجر کے فوجی حکمران اس پولرائزڈ اور غیر مستحکم صورتحال میں زندہ رہنے کے لئے روس اور چین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نائجیریا کی زیر قیادت اور مغربی حمایت یافتہ مغربی افریقی ریاستوں کی اقتصادی برادری (ای سی او ڈبلیو اے ایس) نے نائیجر کی فوجی حکومت کے خلاف فوجی کاروائی کی دھمکی دی ہے۔ ای سی او ڈبلیو اے ایس نے فوجی محاذ آرائی سے بچنے کےلئے صدر بزوم کی بحالی کے لئے پچیس اگست کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ نائیجیریا اور سینیگال نائیجر پر حملہ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں جبکہ گنی‘ برکینا فاسو‘ مالی‘ چاڈ اور الجیریا ای سی او ڈبلیو اے ایس کی طرف سے کسی بھی فوجی مداخلت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال ایک علاقائی جنگ کا باعث بن سکتی ہے جس میں مختلف مغربی افریقی ممالک شامل ہیں۔ مالی اور برکینا فاسو کی حکومتوں نے اعلان کیا ہے کہ نائیجر کے خلاف فوجی مداخلت ان ممالک کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہوگی جبکہ گنی بغاوت کی حمایت میں سامنے آیا ہے اور پابندیاں عائد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اب دو علاقائی بلاک مو¿ثر طریقے سے ابھر ے ہیں‘ جس سے مزید تنازعات اور عدم استحکام کا خطرہ ہے۔ نائیجیریا‘ سینیگال‘ مالی‘ برکینا فاسو اور نائیجر پر مشتمل علاقائی جنگ خطے میں مزید تباہی‘ غربت‘ بھوک‘ اموات اور سیاسی و معاشی عدم استحکام لائے گی۔ امریکہ‘ فرانس اور دیگر یورپی طاقتیں نائیجر میں فوجی بغاوت کی مخالفت کر رہی ہیں جبکہ روس اور چین فوجی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔سال دوہزاربیس سے اب تک خطے میں چار کامیاب اور دو ناکام فوجی بغاوتیں ہو چکی ہیں جس سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ فوجی بغاوتیں دیگر ممالک میں بھی پھیل سکتی ہیں۔ مغربی افریقہ میں مغرب نواز حکومتیں‘ خاص طور پر نائجیریا اور سینیگال کی حکومتیں روس اور چین پر فوجی بغاوتوں کی حمایت کرنے کا الزام لگا رہی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خطے میں اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے تحفظ اور انہیں آگے بڑھانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر خالد بھٹی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)