نوجوانوں کے عالمی دن کا رواں برس موضوع ”نوجوانوں کے لئے سبز مہارت: پائیدار دنیا کی طرف قدم“ تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا پر بسنے والی نصف آبادی کی عمر تیس سال یا اس سے کم ہے اور توقع ہے کہ سال دوہزار تیس تک نوجوانوں کی آبادی ستاون فیصد تک پہنچ جائے گی۔ ’یو این ڈی پی‘ کی حالیہ رپورٹ 2018ءکے مطابق چونسٹھ فیصد پاکستانی قوم کی عمریں تیس سال سے کم ہیں اور اُنتیس فیصد پاکستانیوں کی عمریں پندرہ سے اُنتیس سال کے درمیان ہیں۔ ہمارے سیارے کو آب و ہوا کی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بچانے اور اسے پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے سبز صلاحیتوں کو فروغ دینے کے عمل میں نوجوانوں کو فعال طور پر شامل کئے بغیر اہداف حاصل نہیں ہو سکتے۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے ماحول دشمن گیسوں کا اخراج ختم (صفر) کرنے کے لئے اہداف مقرر کئے ہیں اور اِن اہداف تک پہنچنے کے لئے ٹائم لائنز بھی وضع کی ہیں تاہم اِن اہداف کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو معیشت میں سرسبز یعنی ماحول دوست بنانے پر آمادہ کیا جائے۔
یورپ سال دوہزارپچاس تک آب و ہوا سے نمٹنے والا پہلا براعظم بننے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ایک اندازے کے مطابق قریب ایک لاکھ اَسی ہزار افراد کو ہنر مند بنانے کی ضرورت ہوگی۔ اِسی طرح امریکہ بھی اپنے ہاں ’گرین گروتھ‘ کے لئے تیار ہے اور چاہتا ہے کہ اُس کی معیشت میں کل ملازمتیں ماحول دوست ہوں۔ پاکستان کے نوجوانوں میں ماحول دوست صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لئے ہمیں دو مراحل پر مبنی پالیسی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے پہلی ضرورت تعلیم جبکہ دوسری ضرورت روزگار کے مواقعوں کی ہے۔ ماحول دوستی کی ابتدا تعلیم سے ہونی چاہئے اور یہی پائیدار ذریعہ ہے۔ والدین اور اساتذہ بچوں کو درخت لگانے اور درختوں کی حفاظت سکھا سکتے ہیں۔ بچوں کو سالگرہ‘ یوم آزادی وغیرہ جیسے مواقعوں پر درخت لگانے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کو ماحول دوست طرز زندگی اپنانے کی جانب راغب کریں جس میں وسائل کا کم سے کم استعمال‘ وسائل کا دوبارہ استعمال اور وسائل کو ازسر نو (ری سائیکل) استعمال شامل ہے۔ اسی طرح آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحولیاتی چیلنجوں کے بارے میں بنیادی معلومات پرائمری سطح پر نصاب کا حصہ ہونی چاہئیں۔ تعلیم کی سینئر سطح پر‘ آب و ہوا اور ماحولیاتی مسائل پر مکمل موضوعات اور مضامین متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کو ضلعی‘ صوبائی اور قومی سطح پر ماحول دوست موضوعات کے عنوان سے مقابلوں کا انعقاد کرنا چاہئے جیسا کہ مباحثے‘ پینٹنگز وغیرہ۔ اعلیٰ تعلیم کی سطح پر خصوصی مضامین اور سکالرشپس کا آغاز کیا جا سکتا ہے تاکہ نوجوانوں کو خصوصی تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کیا جا سکے۔ تعلیمی شعبے میں سرسبز تعلیم کے بین الاقوامی رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرنے کے لئے تعلیمی اداروں میں آگاہی مہمات‘ سیمینار اور کانفرنسیں ہونی چاہئیں۔ دوسرا قدم گرین اکانومی کا ہے جس کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ نوجوانوں کی سبز صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاسکے۔ ’آئی ایل او‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لئے پائیدار طریقوں کو اپنایا جائے اور ان پر عمل درآمد کیا جائے۔ کرہ¿ ارض کا مستقبل آب و ہوا کی لچک دار اور وسائل کی بچت کرنے والی معیشت پر منحصر ہے۔ اگر پاکستان میں اس شعبے میں ملازمتوں کی طلب پورا نہیں ہوتی تو حاصل کردہ تعلیم اور ہنر کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پاکستان کے اندر ماحول دوست منصوبوں میں بہترین ذہنوں کی سرمایہ کاری کے لئے ہمیں تعلیم اور ہنر مندی کی ترقی کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
حکومت پاکستان پہلے ہی ماحول دوست منصوبوں جیسا کہ سولرائزیشن‘ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس‘ الیکٹرک وہیکلز اور جنگلات کے شعبے کی بحالی کے لئے بہت سے اقدامات کر رہی ہے تاکہ روزگار فراہم کیا جا سکے۔ ماحول دوست ملازمتوں کو ماحولیاتی اور جنگلی حیات کے تحفظ‘ پائیدار زراعت اور نقل و حمل جیسے شعبوں میں مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔ ان ملازمتوں میں پبلک ٹرانسپورٹ ڈرائیورز‘ گرین انفراسٹرکچر پلانرز‘ پائیدار زراعت کے ماہرین اور دیگر شعبوں سے افراد کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ مستقبل کا اہم شعبہ سبز معیشت میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال ہے۔ پاکستان کو مستقبل کی ضروریات کے لئے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں نوجوانوں کو تعلیم دینے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ مستقبل کے نقطہ نظر کو اپنانے اور پاکستان کے نوجوانوں میں سبز مہارتوں کی ترقی سے بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ یہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ماحول دوست پائیدار ترقی ہی محفوظ معاشی مستقبل کا ضامن ہو سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ نوجوان ہی ہیں جو حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور ماحولیاتی نظام کو فعال رکھنے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوانوں میں ایک تو توانائی ہوتی ہے جو کسی بھی تحریک کے لئے ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے زیادہ فکر مند بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مستقبل کو اس سے وابستہ دیکھتے ہیں نوجوانوں کو ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے متحرک بنانے کے لئے ضروری ہے کہ نظام تعلیم کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ ابتداءہی سے ایک طالب علم کو یہ معلوم ہو کہ اپنے ماحول کو سدھارنا اور اسے زندگی دوست بنائے رکھنا اس کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے اسے اپنا کردار ادا کرنا ہے تعلیمی نظام وہ بنیادی اکائی ہے جو ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے اگر ایک بچے میں شروع سے ہی اپنے ماحول کو سمجھنے کا شعور آ جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آج ہمیں جن مسائل کاسامنا ہے وہ حل نہ ہوں تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام کو فی الفور اس حوالے سے متحرک بنایا جائے اور اس میں جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات کا عمل جلد از جلد شروع کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے ہم ایک محفوظ اور زندگی دوست دنیا چھوڑ جائیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ ابوالحسن امام)